April 26, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 38

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

اور جنہوں نے اپنے پروردگار کی بات مانی ہے، اور نماز قائم کی ہے، اور اُن کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں ، اور ہم نے اُنہیں جو رزق دیا ہے، اُس میں سے وہ (نیکی کے کاموں میں ) خرچ کرتے ہیں

آیت ۳۸:  وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ: ’’اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہا اور نماز قائم کی۔‘‘

        یہ کون سی پکار ہے؟ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ ذہن میں رکھئے کہ اس سورت میں اب تک جمع کے صیغے میں فعل امر ایک ہی مرتبہ آیا ہے، یعنی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ: اور جمع کے صیغے میں اب تک ایک ہی مرتبہ فعل نہی آیا ہے، یعنی (وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ) ۔ چنانچہ یہی وہ پکار یا حکم ہے جس کی استجابت کا ذکر یہاں ہوا ہے، یعنی (اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ) (آیت: ۱۳) ’’ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘۔ اور اسی کے بارے میں حضور کو آیت ۱۵ میں مخاطب کر کے فرمایا گیا تھا (فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآءَہُمْ) کہ آپ کی دعوت کا عمود اور مرکزی پیغام اقامت دین ہے، اسی کی طرف آپ نے لوگوں کو بلانا ہے، اسی کی ضرورت اور اہمیت کو ان کے اذہان میں نقش (hammer) کرنا ہے۔ یہی آپ کا مشن ہے اور یہی آپ کی دعوت کا اصل ہدف۔ آپ اپنے اسی مشن اور اسی موقف پر ڈٹے رہیے اور مخالفین کی مخالفت کی بالکل پروا نہ کیجیے۔

        بلا شبہ یہ مشن بہت عظیم ہے اور اسی نسبت سے اس کی جدوجہد کے لیے خصوصی سیرت و کردار کے حامل مردانِ کار درکار ہیں۔ چنانچہ آیاتِ زیر مطالعہ میں ان اوصاف کا تذکرہ ہے جو اس مشن کے علمبرداروں کی شخصیات کے لیے ناگزیر ہیں۔ نماز کی پابندی کے بعد اگلا وصف بیان ہوا:

         وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ: ’’اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘

        ظاہر ہے اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اجتماعیت درکار ہے اور اجتماعی زندگی میں فیصلے کرنے اور مختلف امور نپٹانے کے لیے باہمی مشاورت بہت ضروری ہے۔ لیکن کسی اجتماعیت کے اندر اگر مؤثر مشاورتی نظام موجود نہیں ہو گا اور کوئی ایک فرد دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کا طرزِ عمل اپنانے کی کوشش کرے گا تو اس سے نہ صرف اجتماعی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا بلکہ خود اس اجتماعیت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔

        جماعتی زندگی میں مشاورت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزوۂ اُحد میں جن صحابہ سے درّہ چھوڑنے کی غلطی سرزد ہوئی ان کے بارے میں حضور کو حکم دیا گیا: فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ: (آل عمران: ۱۵۹) کہ نہ صرف آپ انہیں معاف کر دیں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں بلکہ انہیں مشورے میں بھی شامل رکھیں۔ مشاورت کے عمل سے اجتماعیت کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے ساتھیوں کے مابین مشترکہ سوچ اور باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو جماعت کے اندر اپنی موجودگی کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس کی بات سنی جاتی ہے۔

        حضور خود بھی صحابہ سے مشورے کو بہت اہمیت دیتے تھے، بلکہ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ حضورؐ نے اپنی رائے پر صحابہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے فیصلہ صادر فرمایا۔ مثلاً غزوئہ بدر کے موقع پر حضور نے لشکر کے کیمپ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا۔ مگر جب کیمپ لگ چکا تو کچھ صحابہ نے آپ سے اجازت لے کر رائے دی کہ بعض وجوہات کی بنا پر دوسری جگہ کیمپ کے لیے زیادہ موزوں تھی۔ چنانچہ آپ نے صحابہ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کیمپ اکھاڑ کر صحابہ کی مجوزہ جگہ پر لگانے کا حکم دے دیا۔ بہر حال اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف جماعت کے نظم و نسق کا تقاضا ہے کہ اس جماعت میں مشاورت کا خصوصی اہتمام رکھا جائے۔

         وَمِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُوْنَ: ’’اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘

        دعوت واقامت دین کی جدوجہد میں مصروف لوگوں کو جہاں اپنے وقت اور اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑے گی، وہاں اس راستے میں انہیں اپنا مال بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ متعلقہ لوگوں کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی گنوا دیا گیا کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ’’انفاق‘‘ بھی کرتے ہیں۔

        قرآن کو غور سے پڑھنے والا شخص جانتا ہے کہ اس کے بہت سے مضامین ایک جیسے الفاظ کے ساتھ دہرا دہرا کر بیان ہوئے ہیں۔ خاص طور پر مکی سورتوں میں ملتی جلتی آیات مختلف اسالیب کے ساتھ بار بار آئی ہیں۔ اسی لیے قرآن کو: کِتٰـباً مُتَشَابِھًا (الزمر: ۲۳) کا نام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر سورت کا ایک خاص مرکزی مضمون یا عمود بھی ہے جسے مضامین کے تنوع اور تکرار میں سے تلاش کرنے کے لیے غور و فکر اور تدبر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سورۃ الشوریٰ پر اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس سورت میں اگرچہ دوسری مکی سورتوں کے تمام مضامین بھی وارد ہوئے ہیں، لیکن اس کا مرکزی مضمون یا عمود ’’اقامت دین‘‘ ہے۔ اور اس مضمون کے اعتبار سے اس سورت کی زیر مطالعہ آیات پورے قرآن میں منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ ان آیات کی اس اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون سے متعلق جن نکات کا ہم اب تک مطالعہ کر چکے ہیں انہیں ایک مرتبہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے۔

        چنانچہ اعادہ کے لیے ایک دفعہ پھر آیت ۱۰ کی طرف رجوع کریں جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تصور ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ) یعنی تمہارے باہمی اختلافات میں حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔ یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے ہم سورۂ یوسف میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ حضرت یوسف نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: (اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ) (آیت: ۴۰) یعنی حاکمیت کا اختیار صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے، اُس نے حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی دین قیم ہے۔ اس کے بعد آیت ۱۳ سے لے کر آیت ۲۱ تک ۹ آیات میں اقامت دین کا مضمون بہت جامع انداز میں بیان ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے بھی پہلی تین آیات اپنی جامعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ آیت ۱۳ میں فرمایا گیا: (اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ) کہ دین کو قائم کرو اور اس معاملے میں اختلاف میں نہ پڑو۔ یعنی جزئیات اور فروعات میں اختلاف کا ہونا اور بات ہے، لیکن دین کی اصل وحدت اور دین کے غلبہ کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں تفرقہ بازی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر اس کے بعد آیت: ۱۵ میں حضور کے لیے یہ حکم اس حوالے سے بہت اہم ہے: (وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآءَہُمْ) کہ آپ اللہ کے حکم کے مطابق اپنے موقف پر ڈٹے رہیے اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ پھر اسی آیت کے یہ الفاظ تو گویا اس مضمون کی شہ سرخی کا درجہ رکھتے ہیں: (وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ) کہ آپؐ اعلان کر دیجیے کہ میں تم لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنے کے لیے آیا ہوں۔ میں تم لوگوں کو صرف نصیحتیں کرنے اور وعظ سنانے کے لیے نہیں آیا بلکہ معاشرے میں اجتماعی طور پر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا میرا فرضِ منصبی ہے۔ پھر اس سلسلے کی آخری بات آیت ۲۱ میں یوں فرمائی گئی: (اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ) کہ کیا ان کے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جس نے ان کو دین عطا کیا ہے اور ان کے لیے کوئی جامع نظام اور کوئی ضابطہ حیات وضع کیا ہے؟ یعنی وہ ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے جس نے اپنے بندوں کو دین حق عطا کیا ہے جو ان کے لیے مکمل اور کامل ضابطہ حیات ہے۔ [سورۃ المائدۃ کی آیت ۳ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی کاملیت کی سند ان الفاظ میں عطا فرمائی ہے: (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا)

        پھر آیت ۳۶ سے آیت ۴۳ تک آٹھ آیات میں وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کے علمبرداروں کو اپنی شخصیات میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں بھی پہلی تین آیات بہت جامع اور اہم ہیں۔ ان تین آیت میں جن اہم نکات کا ابھی ہم نے مطالعہ کیا ہے ان میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور اس کے مقابلے میں دنیا و مافیہا کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ چنانچہ غلبہ ٔدین کی جدوجہد کے لیے نکلنے والے ہر شخص کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ دنیا کے لیے اس کی محنت صرف بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی حد تک محدود رہے گی، جبکہ اس کا اصل مقصود و مطلوب آخرت کی زندگی اور اس زندگی کی کامیابی ہے۔ ثانیاً اس جدوجہد میں توکل صرف اور صرف اللہ کی ذات پر ہو گا۔ مادی وسائل، اپنی ذہانت، طاقت اور صلاحیت پر تکیہ نہیں کیا جائے گا۔ ثالثاً تقویٰ، تزکیہ نفس اور اصلاحِ کردار کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس کے لیے کبائر اور فواحش سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہو گی اور غصہ سمیت تمام باطنی خبائث سے بھی اپنے سینوں کو پاک کرنا ہو گا۔

        پھر جو لوگ اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد پر کمربستہ ہو جائیں، انہیں اللہ تعالیٰ سے قلبی رشتہ جوڑنے اور یہ رشتہ قائم رکھنے کے لیے نماز کا التزام کرنا ہو گا۔ ان کے تمام فیصلے باہمی مشاورت سے طے ہوں گے اور اس جدوجہد میں ان کو اپنا وقت، اپنا مال، اپنی صلاحیتیں غرض اپنا وہ سب کچھ کھپا دینے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہو گا جو اللہ نے انہیں دیا ہے۔

        زیر مطالعہ سورتوں میں انسانی سیرت و کردار سے متعلق جو ہدایات آئی ہیں ان کے بارے میں یہ نکتہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ صحابہ کے کردار کے وہ تمام پہلو جو مدنی دور میں نمایاں ہوئے ان کی تمہید مکی دور میں ہی اٹھائی گئی تھی اور مدینہ پہنچے سے پہلے ہی ان ہدایات و احکام کے ذریعے ان لوگوں کو عملی میدان کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیا گیا تھا۔

        اب اگلی پانچ آیات میں مردانِ حق کے جس وصف کا ذکر خصوصی اہتمام سے کیا جا رہا ہے وہ ’’بدلہ‘‘ لینے کی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی بظاہر سورہ حٰمٓ السجدۃ کے اس حکم سے متضاد نظر آتی ہے جس میں لوگوں کی زیادتیوں کو برداشت کرنے اور عفو و درگزر سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس ظاہری تضاد یا حکمت عملی کی تبدیلی کے فلسفے کو یوں سمجھیں کہ سورۂ حٰمٓ السجدۃ کا مرکزی مضمون ’’دعوت‘‘ ہے جبکہ سورۃ الشوریٰ کا مرکزی مضمون ’’اقامت دین‘‘ ہے۔ دعوت کے لیے تو ظاہر ہے خوشامد بھی کرنا پڑتی ہے، لوگوں کے دروازوں پر بھی جانا پڑتا ہے اور ان کی جلی کٹی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ اس لیے سورۂ حٰمٓ السجدۃ میں لوگوں کی زیادتیوں کو برداشت کرنے اور گالیاں سن کر دعائیں دینے کا سبق دیا گیا ہے۔ لیکن زیر مطالعہ سورت میں اقامت دین اور عملی جدوجہد (active resistance) کے تناظر میں سختی کا جواب سختی سے دینے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ سورۂ حٰمٓ السجدۃ میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں دعوت کا مرحلہ کامیابی سے طے کرنے کے بعد غلبہ دین کی تحریک مسلح تصادم (armed conflict) کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ مرحلہ تیغ بکف، سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترنے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر باطل کو للکارنے کا مرحلہ ہے۔ چنانچہ اب صورتِ حال کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حکمت عملی بھی بدل رہی ہے اور شمع توحید کے پروانوں کو ممکنہ حالات کے پیش نظر نئی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ 

UP
X
<>