April 26, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 39

وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ

اور جب اُن پر کوئی زیادتی ہوتی ہے تو وہ اپنا دفاع کرتے ہیں

آیت ۳۹:  وَالَّذِیْنَ اِذَٓا اَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنْتَصِرُوْنَ: ’’اور وہ لوگ کہ جب ان پر زیادتی ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔‘‘

        یعنی اقامت دین کی جدوجہد جب ’’قتال‘‘ کے مرحلے میں داخل ہو جائے تو پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حکم ہے۔ سورۃ البقرۃ میں اس حکمت عملی کو یوں بیان فرمایا گیا ہے (وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ) (آیت: ۱۹۱) ’’اور قتل کر دو انہیں جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور نکال باہر کرو انہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا‘‘۔ گویا جب ایک دفعہ آگے بڑھ کر باطل کو چیلنج کردیا گیا تو پھر فیصلہ کن فتح تک اس جنگ کو سختی سے جاری رکھنے کا حکم ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ بدر میں پکڑے گئے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کیے جانے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے (سورۃ الانفال کی آیات ۶۷، ۶۸ میں) ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا گیا۔ ان قیدیوں کے بارے میں حضرت عمر کی رائے یہ تھی کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، بلکہ آپؓ کو تو اصرار تھا کہ ہر مسلمان اپنے رشتے دار اور عزیز قیدی کو خود اپنے ہاتھ سے قتل کرے۔ اس حوالے سے آپؓ کی دلیل یہی تھی کہ اگر آج ان لوگوں کو چھوڑ دیا گیا تو کل وہ پھر ہمارے مقابلے میں آ جائیں گے۔ حضرت عمر کے اس خدشے کی اس وقت تصدیق بھی ہو گئی جب فدیہ پر رہائی پانے والے قیدیوں میں سے اکثر و بیشتر اگلے سال غزوئہ اُحد میں مسلمانوں کے خلاف پھر سے آ کھڑے ہوئے تھے۔ عام مفسرین کے نزدیک سورۃ الانفال کی مذکورہ آیات حضرت عمر کی رائے کی تائید میں نازل ہوئیں۔ 

UP
X
<>