April 26, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 51

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اﷲ اُس سے (رُوبرو) بات کرے، سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو، یا کسی پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا (فرشتہ) بھیج دے، اور وہ اُس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچادے۔ یقینا وہ بہت اُونچی شان والا، بڑی حکمت کا مالک ہے

آیت ۵۱:  وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ: ’’اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے‘‘

        اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے، وہ جو چاہے کرے، مگر کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس سے ہم کلام ہو۔

         اِلَّا وَحْیًا: ’’ سوائے وحی کے‘‘

        یہ وحی کی پہلی قسم ہے جسے ’’القاء‘‘ یا ’’الہام‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے براہِ راست بندے تک اپنا پیغام پہنچادیتا ہے اور متعلقہ بات اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ شہد کی مکھی کی طرف وحی کرنا (النحل : ۶۹)، ہر آسمان میں اس سے متعلقہ پیغام پہنچانا (حٰمٓ السجدۃ: ۱۲) اور حضرت موسیٰ کی والدہ کے دل میں القاء کرنا (القصص : ۷) اس وحی کی مثالیں ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔

         اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ: ’’یا (پھر وہ بات کرتا ہے) پردے کی اوٹ سے‘‘

        یہ وحی کی دوسری قسم ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام فرمایا: (وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا) ( النساء) ۔

         اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآءُ: ’’یا وہ بھیجتا ہے کسی پیغام بر َ (فرشتے) کو، پھر وہ وحی کرتا ہے اللہ کے حکم سے جو وہ چاہتا ہے۔‘‘

        یہ وحی کی تیسری قسم ہے، جیسے حضرت جبرائیل کے ذریعے سے پورا قرآن حضور کے قلب مبارک پر نازل ہوا۔

         اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ : ’’وہ بہت بلند و بالا ہے، کمال حکمت والا ہے۔‘‘

        اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی انسان سے براہِ راست بغیر حجاب کے کلام کرے، اور وہ کمال حکمت والا ہے، اس نے اپنی حکمت کے مطابق انسانوں تک پیغام رسانی (communication) کا جو طریقہ چاہا اختیار فرمایا۔ 

UP
X
<>