May 5, 2024

قرآن کریم > الزخرف >sorah 43 ayat 48

وَمَا نُرِيهِم مِّنْ آيَةٍ إِلاَّ هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا وَأَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

اور ہم اُنہیں جو نشانی بھی دکھاتے، وہ پہلی نشانی سے بڑھ چڑھ کر ہوتی تھی، اور ہم نے اُنہیں عذاب میں بھی پکڑا، تاکہ وہ باز آجائیں

آیت ۴۸:  وَمَا نُرِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکْبَرُ مِنْ اُخْتِہَا: ’’اور نہیں دکھاتے تھے ہم انہیں کوئی نشانی مگر وہ اپنی بہن (اپنے جیسی پہلی نشانی) سے زیادہ بڑی ہوتی تھی‘‘

          یعنی ہم ان کو ایک سے ایک بڑھ کر نشانیاں دکھاتے رہے۔ یہ حضرت موسیٰ کو دی گئی مزید سات نشانیوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان میں ایک بہت بڑی نشانی حضرت موسیٰ کا جادوگروں سے مقابلہ تھا‘ جس میں شکست کھا کر وہ ایمان لے آئے۔ مزید برآں مصر میں شدید قحط‘ ہولناک طوفانِ باد وباراں‘ ٹڈی دل کا خوفناک حملہ‘ چچڑیوں اور کھٹملوں کی بہتات‘ مینڈکوں کا اُمڈا ہوا سیلاب‘ کنوؤں اور چشموں کے پانی کا خون میں تبدیل ہو جانا‘ ایسی نشانیاں تھیں جن کا ظہور یکے بعد دیگرے حضرت موسیٰ کے پیشگی اعلان کے بعد ہوتا اور آنے والی آفت اُس وقت تک نہ ٹلتی جب تک حضرت موسیٰ  اُسے ٹالنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرتے۔ ان نشانیوں کا ذکر سورۃ الاعراف کے سولہویں رکوع میں ہوا ہے۔

           وَاَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ: ’’اور ہم انہیں پکڑتے رہے اس عذاب کے ذریعے‘ شاید کہ وہ باز آ جائیں۔‘‘

          یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اصول اور قانون ہے کہ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بڑے عذاب سے پہلے ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں۔ اس اصول کا ذکر سورۃ السجدۃ میں اس طرح ہوا ہے: (وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ) ’’اور ہم لازماً چکھائیں گے انہیں مزہ چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے‘ شاید کہ یہ لوگ پلٹ آئیں‘‘۔ نوٹ کیجیے ان دونوں آیات کے اختتامی الفاظ ایک سے ہیں۔

UP
X
<>