April 26, 2024

قرآن کریم > الفتح >sorah 48 ayat 29

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں ، (اور) آپس میں ایک دوسرے کیلئے رحم دل ہیں ۔ تم اُنہیں دیکھوگے کہ کبھی رُکوع میں ہیں ، کبھی سجدے میں ، (غرض) اﷲ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔ اُن کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُن کے چہرو ں پر نمایاں ہیں ۔ یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں ۔ اور اِنجیل میں اُن کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اُس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اُس سے خوش ہوتے ہیں ، تاکہ اﷲ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، اﷲ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کر لیا ہے

آیت ۲۹  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآء  عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآء بَیْنَہُمْ : ’’محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں‘‘

            آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ اگر پہلا فقرہ  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر مکمل کر دیا جائے اور  وَالَّذِیْنَ سے دوسرا فقرہ شروع کیا جائے تو آیت کا مفہوم وہی ہو گا جو اوپر ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔ لیکن اگر پہلے فقرے کو  وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ تک پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول محمد اور آپؐ کے ساتھی ایک وحدت اور ایک جماعت ہیں۔ اس طرح دوسرے فقرے میں بیان کی گئی دو خصوصیات اس جماعت کی خصوصیات قرار پائیں گی۔ یعنی اللہ کے رسول  اور آپؐ کے ساتھی کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت شفیق و مہربان ہیں۔

            اہل ایمان کی اس شان کا ذکر زیر مطالعہ آیت کے علاوہ سورۃ المائدۃ آیت ۵۴ میں بھی ہوا ہے۔ وہاں مؤمنین صادقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا: اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ. ’’وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے‘کافروں پر بہت بھاری ہوں گے‘‘۔ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے:    

 ہو حلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرم     رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!

            یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ یہ آیت بیعت کے تذکرے کے بعد آئی ہے۔ اس ترتیب سے گویا یہ یاددہانی کرانا مقصود ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ: کے الفاظ میں جس جماعت کا ذکر ہوا ہے وہ بیعت کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ اس حوالے سے حضور کی سیرت سے جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص آپ پر ایمان لاتا‘ آپ اس سے بیعت لیتے تھے‘ یہ ایمان کی بیعت تھی۔ لیکن سیرت کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اہل مکہ میں سے آپ نے کسی سے ایمان کی بیعت کبھی نہیں لی‘ بلکہ اہل مکہ میں سے جو کوئی ایمان لانا چاہتا وہ کلمہ ٔشہادت پڑھتا اور بس حلقہ اسلام میں داخل ہو جاتا۔ اس کے لیے کسی علامتی اقدام کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہاں اگر کوئی شخص باہر سے آتا تو اس سے آپ ایمان کی بیعت لیتے تھے۔

            اس کے علاوہ مکی دور میںآپ نے دو بیعتوں کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا تھا۔ یعنی بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ۔ ان میں بیعت عقبہ ثانیہ وہ بیعت ہے جس کی بنیاد پر مسلمان باقاعدہ ایک ’’جماعت‘‘ بنے تھے۔ اس بات کی گواہی اس بیعت کے الفاظ بھی دیتے ہیں۔ یہ الفاظ ایک متفق علیہ روایت کے مطابق حضرت عبادہ بن صامت سے اس طرح نقل ہوئے ہیں:

بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِِ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا، وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ، وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا، لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 

’’ہم نے اللہ کے رسول سے بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے۔ ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں‘ لیکن سچ بولیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے خوف رہیں گے۔‘‘

            غور کیجئے ‘اس بیعت کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کس قدر اہم اور سبق آموز ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول  سے کہ ہم آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے۔ خواہ مشکل ہو‘ خواہ آسانی ہو‘ خواہ اس کے لیے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں‘ خواہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے اور خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے…یعنی ہم کبھی شکایت نہیں کریں گے کہ ہم آپؐ کے پرانے ساتھی ہیں جبکہ آپؐ ہمارے اوپر ایک نوواردکو امیر کیوں مقرر کر رہے ہیں؟ بس یہ آپؐ کا اختیار ہو گا کہ آپؐ جس کو چاہیں امیر مقرر کریں‘ آپؐ جو فیصلہ چاہیں کریں… اور یہ کہ ہم آپؐ کے مقرر کردہ امیر سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے…اس بارے میں رسول اللہ کا فرمان بھی بہت واضح ہے:

((مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ)) 

’’جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘

            اطاعت امیر کے حوالے سے یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جماعتی زندگی میں ’’امیر‘‘صرف ایک نہیںہوتابلکہ مختلف سطحوں پر اوپر نیچے بہت سے ’’اُمراء ‘‘ہوتے ہیں۔ جیسے فوج کا ایک سپہ سالار ہوتا ہے ‘اس کے نیچے مختلف رجمنٹس ‘ بٹالینز ‘ کمپنیز اور پلاٹونز کے اپنے اپنے کمانڈرز ہوتے ہیں‘ اسی طرح ایک تنظیم کا ایک مرکزی امیر ہو گا‘ پھر صوبائی اُمراء ‘ڈويژنل اُمراء‘ ضلعی اُمراء ہوں گے اور ان سب اُمراء کا سلسلہ وار سمع و طاعت کا نظام ہو گا۔

            حضور کی مذکورہ بیعت کی یہ آخری شق بھی بہت اہم ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔ یعنی مشورہ مانگا جائے گا تو بے لاگ مشورہ دیں گے‘ اپنی رائے کو چھپا کر نہیں رکھیں گے --- اس حوالے سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک مامور کی ذمہ داری صرف مشورہ دینے کی حد تک ہے۔ اس کے بعد امیر جو فیصلہ بھی کرے اسے دل و جان سے تسلیم کرنا اس پر لازم ہے ‘جیسا کہ سورۂ محمد کی آیت ۲۱ کے الفاظ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ: سے واضح ہوتا ہے کہ جب فیصلہ ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت لازم ہے۔

            بہر حال جب منہجِ انقلاب نبوی میں اقدام کا مرحلہ آنے کو تھا‘ Passive Resistance تبدیل ہورہی تھی Active Resistance میں‘ تو مسلمانوں میں ایک باقاعدہ جماعت کا نظم وجود میں آیا اور اس نظم کی بنیاد بیعت عقبہ ثانیہ بنی۔ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ: میں اسی جماعت اور اسی نظم کی طرف اشارہ ہے۔

            تَرٰاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا: ’’تم دیکھو گے انہیں رکوع کرتے ہوئے‘ سجدہ کرتے ہوئے‘ وہ (ہر آن) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں‘‘

            سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ: ’’ان کی پہچان ان کے چہروں پر (ظاہر) ہے سجدوں کے اثرات کی وجہ سے۔‘‘

            سجدوں کے نشان سے عام طور پر پیشانی کا گٹہ مراد لے لیا جاتا ہے جو بعض نمازیوں کے چہروں پر کثرتِ سجود کی وجہ سے پڑ جاتا ہے۔ لیکن یہاں اس سے اصل مراد ایک نمازی اور متقی مؤمن کے چہرے کی وہ نورانیت اور خاص کیفیت ہے جو اس کے عمل و کردار کی غمازی کرتی محسوس ہوتی ہے۔

            ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰاۃِ: ’’یہ ہے ان کی مثال تورات میں۔ ‘‘

            یعنی محمد رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کرام کی یہ تمثیل تورات میں بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ نے تورات اور انجیل میں قطع و برید کر کے حضور اور آپؐ کے صحابہؓ کے بارے میں پیشین گوئیوں کو بالکل مسخ کر دیا ہے‘ تاہم آج بھی تورات اور انجیل دونوں میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا مصداق نبی آخرالزماں کے سوااور کوئی نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کتاب استثناء‘ باب ۳۳‘ آیت ۲ ملاحظہ ہو: ’’خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا‘ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔‘‘

            وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْل کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ: ’’اور انجیل میں ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی کونپل‘ پھر اس کو تقویت دی‘ پھر وہ سخت ہوئی‘ پھر وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی ۔‘‘

            یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ: ’’یہ کاشتکار کو بڑی بھلی لگتی ہے‘‘

            یہ ایک کھیتی کی مثال ہے۔ بیج کو جب زمین میں دبایا جاتا ہے تو اس سے ایک چھوٹی سی نرم و نازک کونپل پھوٹتی ہے‘ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے‘ پھر اس کا تنا بنتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک مضبوط پودے کی صورت میں بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس طرح جب ایک کھیتی کے تمام پودے اپنے جوبن پر ہوں اور فصل خوب لہلہا رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر کاشتکار کا دل بھی خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔

            لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ: ’’ تا کہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔‘‘

             اس آخری جملے میں گویا واضح کر دیا گیا کہ اس مثال یا تشبیہہ کے پردے میں جس کھیتی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل صحابہ کرامj کی جماعت ہے اوراس کھیتی کا کاشتکار خود اللہ کا رسول ہے۔ چشم تصور سے اس جماعت کے ماضی میں جھانکیں تو ہمیں چند سال پہلے کا وہ نقشہ نظر آئے گا جب سر زمین مکہ میں دعوت کے بیج سے ایک ایک کر کے اس کھیتی کی نرم و نازک کونپلیں نمودار ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کونپلوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بل پر کھڑی ہو سکتیں۔ جناب ابو طالب کے انتقال کے وقت مکہ میں بمشکل ڈیڑھ سو مسلمان تھے۔ خود حضور کے قبیلے نے آپؐ سے تعلق توڑ لیا تھا اور قبیلے کی حمایت کے بغیر مکہ میں رہنا بھی بظاہر آپؐ کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ اسی صورتِ حال کے پیش نظر آپؐ اپنی دعوت اور تحریک کے متبادل مرکز کی تلاش میںطائف تشریف لے گئے تھے۔ لیکن وہاں سے بہت تکلیف دہ حالت میں خالی ہاتھ واپس آنا پڑا تھا۔ طائف سے واپسی تک صورت حال اس حد تک گھمبیر ہو چکی تھی کہ آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے ایک مشرک مطعم بن عدی کی امان لینا پڑی تھی۔ ایک صورتِ حال وہ تھی جو ُکل سرزمین مکہ میں اہل ایمان کو برداشت کرنا پڑی تھی اور ایک منظر یہ تھا جس کا نظارہ آج حدیبیہ کا میدان کر رہا تھا‘ جہاں چودہ سو یا اٹھارہ سو مجاہدین کی سربکف جمعیت سر کٹانے کے لیے بے تاب و بے قرار تھی۔ ان کا نظم و ضبط‘ ان کا جذبہ ٔ ایثار‘ بیعت علی الموت کے لیے ان کا جوش و خروش‘ پھر جنگ کے ٹل جانے اور جانوں کے بچ جانے پر ان کا ملال اور بظاہر دب کر صلح کرنے پر ان کا رنج۔ غرض ان کی ہر ادا نرالی اور ان کا ہر انداز انوکھا تھا۔ یہ تھی وہ کھیتی جو آج حدیبیہ کے میدان میں لہلہاتی ہوئی دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی۔ اس کھیتی کے جوبن کی اس نرالی شان کو آج ملائکہ مقربین بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوں گے اور اس کے ’’نگہبان‘‘ کے اندازِ نگہبانی کی تحسین کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کے ترانے الاپتے ہوں گے۔

            ’’لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ‘‘ کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ محمدٌ رسول اللہ کی اس کھیتی پر جس کا دل جلتا ہو قرآن حکیم اس کے ایمان کی نفی کر رہا ہے۔ صحابہ سے بغض ہو اور دعویٰ ایمان کا ہو تو اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں۔

            وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا: ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے‘ مغفرت اور اجر عظیم کا۔‘‘

            تفسیر عثمانی میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ حضور کے تمام صحابہ ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کر چکے تھے‘ پھر بھی یہاں مِنْہُمْ کی قید لگا کر ان پر واضح کر دیا گیا کہ اس کیفیت پر موت تک قائم رہنا بھی ضروری ہے‘ مبادا کہ بعد میں کسی کے اندر کسی قسم کا کوئی تزلزل پیدا ہو جائے۔ انسان چونکہ طبعاً کمزور واقع ہوا ہے‘ اس لیے اگر اس کو کامیابی کا یقین دلا دیا جائے تو اطمینان کی وجہ سے اس میں تساہل پیدا ہو جاتا ہے‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے ہاں بلند مقام حاصل کر لینے کے باوجود بھی انسان آخری دم تک ’’بین الخوف و الرجاء‘‘ کی کیفیت میں رہے۔

UP
X
<>