May 18, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 105

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ 

اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جولوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو

آیت 105:   یٰٓـاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْـکُمْ اَنْفُسَکُمْ:  ،،اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر ذمہ داری ہے صرف اپنی جانوں  کی۔ ،،

             لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ:   ،،جو کوئی گمراہ ہو جائے وہ تمہیں  نقصان نہیں  پہنچا سکتا،  جبکہ تم ہدایت پر ہو۔ ،،

              اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَــبِّئُکُمْ بِمَا کُنْـتُمْ تَعْمَلُوْنَ: ،،اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اور وہ تمہیں  بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔ ،،

            یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کا ایک غلط مطلب اور مفہوم دورِ صحابہ میں  ہی  بعض لوگوں  نے نکال لیا تھا۔ وہ یہ کہ دعوت و تبلیغ کی کوئی ذمہ داری ہم پر نہیں  ہے، ہر ایک پر اپنی ذات کی ذمہ داری ہے،  کوئی کیا کرتا ہے اس سے کسی دوسرے کو کچھ غرض نہیں  ہونی چاہیے۔   قرآن جو کہہ رہا ہے کہ  ،،تم پر ذمہ داری صرف اپنی جانوں  کی ہے۔  اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا وہ تمہارا کچھ نہیں  بگاڑے گا،،۔  لہٰذا ہر کسی کو بس اپنا عمل درست رکھنا چاہیے،  کوئی دوسرا شخص اگر غلط کام کرتا ہے تو اسے خواہ مخواہ روکنے ٹوکنے،  اس کی ناراضگی مول لینے،  اَمر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی کوئی ضرورت نہیں  ہے۔  اس طرح کی باتیں  جب حضرت ابو بکر صدیق کے علم میں  آئیں  تو آپ نے باقاعدہ ایک خطبہ دیا کہ لوگومیں  دیکھ رہا ہوں  کہ تم اس آیت کا مطلب غلط سمجھ رہے ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہاری ساری تبلیغ، کوشش، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باوجود اگر کوئی شخص گمراہ رہتا ہے تو اس کا تم پر کوئی وبال نہیں ۔ سورۃ البقرۃ میں  ہم پڑھ چکے ہیں: وَّلاَ تُسْألُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ.   ،،(اے نبی)  آپ سے کوئی باز پرس نہیں  ہو گی جہنمیوں  کے بارے میں،،۔ یعنی ہم یہ نہیں  پوچھیں  گے کہ ہم نے آپ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا تھا اور پھر بھی یہ لوگ جہنّم میں  کیوں  چلے گئے؟ لیکن جہاں  تک دعوت و تبلیغ،  نصیحت و موعظت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعلق ہے،  یہ تو فرائض میں  سے ہیں ۔  اس آیت کی رو سے یہ فرائض ساقط نہیں  ہوتے۔ بلکہ اس کا درست مفہوم یہ ہے کہ تمہاری ساری کوشش کے باوجود اگر کوئی شخص نہیں  مانتا تو اب تمہاری ذمہ داری پوری ہو گئی۔  فرض کیجیے کہ کسی کا بچہ آوارہ ہو  گیا ہے، والد اپنی امکانی حد تک کوشش کیے جارہا ہے مگر بچہ راہِ راست پر نہیں  آ رہا،  تو ظاہر بات ہے کہ اگر اُس نے بچے کی تربیت اور اصلاح میں  کوئی کوتاہی نہیں  چھوڑی تو اللہ کی طرف سے اس کی گمراہی کا وبال والد  پر نہیں  آئے گا۔ لیکن اپنا فرض ادا کرنا بہر حال لازم ہے۔ 

UP
X
<>