May 18, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 106

يِا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الآثِمِينَ 

اے ایمان والو ! جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کیلئے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں ) یا اگر تم زمین میں سفر کررہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں ۔ پھر اگر تمہیں کوئی شک پڑجائے تو ان دو گواہوں کو نماز کے بعد روک سکتے ہو، اور وہ اﷲ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اﷲ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کو ہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے

آیت 106:   یٰٓـاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ :  ،،اے اہل ِایمان،  تمہارے درمیان شہادت (کا نصاب)  ہے جبکہ تم میں  سے کسی کو موت آ جائے اور وہ وصیّت کر رہا ہو،  تو تم میں  سے دو معتبر اشخاص (بطور گواہ)  موجود ہوں ،،

            یعنی موت سے قبل وصیت کے وقت اپنے لوگوں  میں  سے دو گواہ (مرد)  مقرر کر لو۔  واضح رہے کہ وصیت کل ترکے کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کی نہیں  ہو سکتی۔  اگر جائیداد زیادہ ہے تو اس کا ایک تہائی حصہ بھی خاصا زیادہ ہو سکتا ہے۔   ُ

             اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ:   ،،یا دوسرے دو آدمی تمہارے غیروں  میں  سے اگر تم زمین میں  سفر پر(نکلے ہوئے)  ہو اور(حالت سفر میں)  تمہیں موت کی مصیبت پیش آ جائے۔ ،،

            یعنی حالت ِسفر میں  اگر کسی کی موت کا وقت آ پہنچے اور وہ وصیت کرنا چاہتا ہو توایسی صورت میں گواہان غیر قوم،  کسی دوسری بستی، کسی دوسری برادری اور دوسرے قبیلے سے بھی مقرر کیے جا سکتے ہیں ، مگر عام حالات میں  اپنی بستی،  اپنے خاندان میں  رہتے ہوئے کوئی شخص انتقال کر رہا ہے تو اسے وصیّت کے وقت اپنے لوگوں ،  رشتہ داروں  اور قرابت داروں  میں  سے ہی دو معتبر آدمیوں  کو گواہ بنانا چاہیے۔

             تَحْبِسُوْنَہُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلٰوۃِ:  ،،تم ان دونوں  گواہوں  کو نماز کے بعد (مسجد میں)  روک لو،،

            یعنی جب وصیت کے بارے میں  متعلقہ لوگ پوچھیں  اور اس میں  کچھ شک کا احتمال ہو تو نماز کے بعد ان دونوں  گواہوں کو مسجد میں  روک لیا جائے۔

             فَـیُـقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ  اِنِ ارْتَـبْتُمْ :  ،،پھر وہ دونوں  اللہ کی قسم کھائیں ،  اگرتمہیں  شک ہو،،

            اگر تمہیں  ان کے بارے میں  کوئی شک ہوکہ کہیں  یہ وصیّت کو بدل نہ دیں ،  کہیں  ان سے غلطی نہ ہو جائے تو تم ان سے قسم اٹھوا لو۔  وہ نماز کے بعد مسجد میں  حلف کی بنیاد پر شہادت دیں ،  اور اس طرح کہیں :

             لاَ نَشْتَرِیْ بِہ ثَمَنًا وَّلَــوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی:  ،،ہم اس کی کوئی قیمت وصول نہیں  کریں  گے، اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں  نہ ہو،،

            یعنی ہم اس شہادت سے نہ تو خود کوئی ناجائز فائدہ اٹھائیں  گے،  نہ کسی کے حق میں  کوئی نا انصافی کریں  گے اور نہ ہی کسی رشتہ دار عزیز کو کوئی نا جائز فائدہ پہنچائیں  گے۔

             وَلاَ نَـکْتُمُ شَہَادَۃَ اللّٰہِ:   ،،اور نہ ہم چھپائیں  گے اللہ کی گواہی کو،،

            غور کریں  گواہی اتنی عظیم شے ہے کہ اسے «شَھَادَۃَ اللّٰہ ِ» کہا گیا ہے، یعنی اللہ کی گواہی،  اللہ کی طرف سے امانت۔

             اِنَّــآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ:  ،،اگر ہم ایسا کریں  تو یقینا ہم گنہگاروں  میں  شمار ہوں  گے۔ ،،

UP
X
<>