May 3, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 26

قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ 

اﷲ نے کہا’’ اچھا ! تو وہ سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے، یہ (اس دوران) زمین میں بھٹکتے پھریں گے۔ تو (اے موسیٰ !) اب تم بھی ان نافرمان لوگوں پر ترس مت کھانا۔ ‘‘

آیت 26:   قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً:   ،،فرمایا اب یہ (ارضِ مقدس)  حرام رہے گی ان پر چالیس سال تک۔ ،،

             یہ ہماری طرف سے ان کی ُبزدلی کی سزا ہے۔  اگر یہ بزدلی نہ دکھاتے تو ارضِ فلسطین ابھی ان کو عطا کر دی جاتی،  مگر اب یہ چالیس سال تک ان پر حرام رہے گی۔

             یَـتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ:   ،،یہ بھٹکتے پھریں  گے زمین میں ۔ ،،

            اس صحرائے سینا میں  یہ چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہیں  گے۔  

             فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ:   ،،تو (اے موسٰی )  آپ افسوس نہ کریں  اس فاسق قوم  پر۔،،

            اب آپ ان نافرمانوں  کا غم نہ کھایئے۔  اب جو کچھ ان پر بیتے گی اس پر آپ کو ترس نہیں  کھانا چاہیے۔  آپ بہرحال ان کی طرف رسول بنا  کر بھیجے گئے ہیں،  جب تک زندگی ہے آپ کو ان کے ساتھ رہنا ہے۔

            اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق بنی اسرائیل چالیس برس تک صحرائے سینا میں  بھٹکتے پھرے۔  اس دوران میں  وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں  مصر سے نکلے تھے اور صحرا میں  ایک نئی نسل پروان چڑھی جو خوئے غلامی سے مبراّ تھی۔  حضرت موسیٰ اور ہارون دونوں  کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہد ِخلافت میں  بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کر سکیں ۔

            اب ذرا اس پس منظر میں سورۃ النساء میں نازل ہونے والے حکم کو بھی یاد کریں۔ یہاں  تو حضرت موسیٰ کا قول نقل ہوا ہے: «لَآ اَمْلِکُ اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ»   لیکن وہاں  حضور  سے فرمایا گیا تھا: فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ تُکَلَّفُ اِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُوْمِنِیْنَ:   (النساء : 84) ۔  ،،(اے نبی)  آپ اللہ کی راہ میں  قتال کیجیے،  آپ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں  ہیں، البتہ اہل ایمان کو بھی ترغیب دیں،،۔  آپ پر کسی اور کی ذمہ داری نہیں  ہے سوائے اپنی جان کے،  البتہ آپ اہل ایمان کو جس قدر ترغیب و تشویق دلا سکتے ہیں  دلائیں، ان کے جذبات ایمانی کو جس جس انداز سے اپیل کرنا ممکن ہے کریں، اور بس اس سے زیادہ آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔  

UP
X
<>