May 5, 2024

قرآن کریم > الـنجـم >sorah 53 ayat 30

ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ ۙ وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدٰى

ایسے لوگوں کے علم کی پہنچ بس یہیں تک ہے۔ تمہارا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ کون اُس کے راستے سے بھٹک چکا ہے، اور وہی خوب جانتا ہے کہ کون راہ پا گیا ہے

آيت 30:  ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ:  «يه هے ان كے علم كى رسائى كى حد».

ان كے علم كى رسائى كى حد بس دنيا تك هى هے اور وه اسى ميں الجھ كر ره گئے هيں. علمِ آخرت ان كے چھوٹے اور محدود ذهنوں كى پهنچ ميں هے هى نهيں. حالانكه انسان كا ذهنى ظرف ذرا بھى وسيع هو تو وه اپنے غور وفكر سے اس نتيجے پر پهنچ سكتا هے كه انسان جو كه اشرف المخلوقات هے اس كى زندگى اتنى بے وقعت نهيں هو سكتى كه اسے «چار دن» كى زندگى كا عنوان دے كر فضول خواهشات كى نذر كر ديا جائے. بقول بهادر شاه ظفر:

     عمرِ دراز مانگ كر لائے تھے چار دن     

دو آرزو ميں كٹ گئے، دو انتظار ميں!

بهرحال يه بات عقل اور منطق هى كے خلاف هے كه انسان جيسى اشرف المخلوقات اور مسجود ملائك هستى كى زندگى محض تيس، چاليس يا پچاس برس كے دورانيے تك محدود هو. اس حوالے سے علامه اقبال كا فلسفه بهت بصيرت افروز اور مبنى برحقيقت هے. علامه كے نزديك انسانى زندگى وقت كے ايسے جاودانى تسلسل كا نام هے جسے پيمانه امروز وفردا سے ناپنا ممكن هى نهيں:

تو اسے  پيمانه امروز  وفردا سے  نه ناپ

جاوداں، پيهم دواں، هر دم جواں هے زندگى!

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى:  «يقينًا آپ كا رب خوب جانتا هے ان كو بھى جو اس كى راه سے بھٹك گئے هيں اور وه خوب جانتا هے ان كو بھى جو هدايت پر هيں».

UP
X
<>