May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 136

وَجَعَلُواْ لِلّهِ مِمِّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَذَا لِلّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَآئِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلاَ يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَمَا كَانَ لِلّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَآئِهِمْ سَاء مَا يَحْكُمُونَ 

اور اﷲ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کئے ہیں ، اِن لوگوں نے اُن میں سے اﷲ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ چنانچہ بزعمِ خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اﷲ کا ہے، اور یہ ہمارے اُن معبودوں کا ہے جن کو ہم خدائی میں اﷲ کا شریک مانتے ہیں ۔ پھر جو حصہ اِن کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اﷲ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اﷲ کا ہوتا ہے، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسی بُری بُری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں !

آیت 136:  وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا:  ’’اور انہوں نے اللہ کے لیے رکھا ہے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں سے ایک حصہ،،

             ایک بڑے خدا کو مان کر چھوٹے خداؤں کو اس کی الوہیت میں شریک کر دینا ہی در اصل شرک ہے۔ اس میں بڑے خدا کا انکار نہیں ہوتا۔ جیسے ہندوؤں میں ’’مہا دیو،، تو ایک ہی ہے جب کہ چھوٹی سطح پر دیوی دیوتا بے شمار ہیں۔ اسی طرح انگریزی میں بھی بڑے G سے لکھے جانے والا  Godہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ وہ Omnipotent ہے،  Omniscient ہے،  Omnipresentہے، وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہے، وہ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ہے، وہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ اس کی صفات ہیں، یہ اس کے  Attributesہیں۔ لہٰذا اس کے لیے تو G بڑا (capital) ہی آئے گا، لیکن چھوٹے سے لکھے جانے والے gods اورgoddesses بے شمار ہیں۔ اسی طرح اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ اللہ تو ایک ہی ہے، کائنات کا خالق بھی وہی ہے، لیکن یہ جو دیویاں اور دیوتا ہیں، ان کا بھی اس کی خدائی میں کچھ دخل اوراختیار ہے، یہ اللہ کے ہاں سفارش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات میں سے کچھ حصہ ان کو بھی سونپ رکھا ہے، لہٰذا اگر ان کی کوئی ڈنڈوت کی جائے، نذرانے دیے جائیں، انہیں خوش کیا جائے، تو اس سے دنیا کے کام چلتے رہتے ہیں۔

            اہلِ عرب کے معروف ذرائع معاش دو ہی تھے۔ وہ بکریاں پالتے تھے یا کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اپنے عقیدے کے مطابق ان کا طریقہ یہ تھا کہ مویشیوں اور فصل میں سے وہ اللہ کے نام کا ایک حصہ نکال کر صدقہ کرتے تھے جب کہ ایک حصہ الگ نکال کر بتوں کے نام پر دیتے تھے۔ یہاں تک تو وہ اپنے تئیں انصاف سے کام لیتے تھے کہ کھیتیوں کی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے اللہ کے لیے بھی حصہ نکال لیا اوراپنے چھوٹے خداؤں کے لیے بھی۔ اب اس کے بعد کیا تماشا ہوتا تھا وہ آگے دیکھئے:

            فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِہِمْ فَلاَ یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِہِمْ:  ’’پھر کہتے ہیں اپنے خیال سے کہ یہ تو ہے اللہ کے لیے اور یہ ہے ہمارے شریکوں کے لیے۔ تو جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچ سکتا اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے۔،،

            اب اگر کہیں کسی وقت کوئی دقت آ گئی، کوئی ضرورت پڑ گئی تو اللہ کے حصے میں سے کچھ نکال کر کام چلا لیتے تھے مگر اپنے بتوں کے حصے کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ گویا بت تو ہر وقت ان کے سروں پر کھڑے ہوتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ بت ناراض ہو گئے تو فوراً ان کی شامت آ جائے گی، لیکن اللہ تو (معاذ اللہ) ذرا دور تھا، اس لیے اس کے حصے کو اپنے استعمال میں لایا جا سکتا تھا۔ ان کی اس سوچ کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں دیہات میں ایک عام دیہاتی پٹواری کو ڈی سی کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ پٹواری سے اسے براہِ راست سابقہ پڑتا ہے، جب کہ ڈی سی کی حیثیت کا اُسے کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ بہر حال یہ تھی وہ صورتِ حال جس میں ان کے شریکوں کے لیے مختص کیا گیا حصہ اللہ کو نہیں پہنچ سکتا تھا، جب کہ اللہ کا حصہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا تھا۔

            سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ:  ’’کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں۔،، 

UP
X
<>