May 19, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 145

قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

 (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : ’’ جو وحی مجھ پر نازل کی گئی ہے اُ س میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا کسی کھانے والے کیلئے حرام ہو، اِلا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہتا ہوا خون ہو، یا سوَر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا جو ایسا گناہ کا جانور ہو جس پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ ہاں جو شخص (ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر) انتہائی مجبور ہو جائے، جبکہ وہ نہ لذت حاصل کرنے کی غرض سے ایسا کر رہا ہو، اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھے، تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

آیت 145:  قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہ:  ’’کہہ دیجیے میں تو نہیں پاتا اس (قرآن) میں جو میری طرف وحی کیا گیا ہے، کوئی چیز حرام کسی کھانے والے پر کہ وہ اسے کھاتا ہو،،

            یہاں پھر وہ قانون دہرایا جا رہا ہے کہ شریعت میں کن چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔

            اِلَّآ اَنْ یَّـکُوْنَ مَیْتَۃً :  ’’سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو،،

            اس مردار کی قسمیں  (الْمُنْخَنِقَۃ، الْمَوْقُوْذَۃ، الْمُتَرَدِّیَۃ) اور تفصیل سورۃ المائدۃ کی (آیت: 3) میں ہم پڑھ چکے ہیں ۔ یعنی جانور کسی بھی طرح سے مر گیا ہو وہ مردار کے زمرے میں شمار ہو گا۔ لیکن اگر مرنے سے پہلے اسے ذبح کر لیا جائے اور ذبح کرنے سے اس کے جسم سے خون نکل جائے تو اس کا کھانا جائز ہو گا۔

            اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا:  ’’یا خون ہو بہتا ہوا،،

            یعنی ایک خون تو وہ ہے جو مذبوح جانورکے جسم کے سکیڑ اور کھچاؤ (rigormortis) کی انتہائی کیفیت کے باوجود بھی کسی نہ کسی مقدار میں گوشت میں رہ جاتا ہے۔ اسی طرح تلی کے خون کا معاملہ ہے۔ لہٰذا یہ چیزیں حرام نہیں ہیں، لیکن جو خون بہایا جا سکتا ہو اور جو ذبح کرنے کے بعد جانور کے جسم سے نکل کر بہہ گیا ہو وہ خون حرام ہے۔

            اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہ:  ’’یا خنزیر کا گوشت کہ وہ تو ہے ہی ناپاک، یا کوئی ناجائز (گناہ کی) شے، جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔،،

            یعنی سور کے گوشت کی وجہ حرمت تو یہ ہے کہ وہ اصلاً ناپاک ہے۔ اس کے علاوہ کچھ چیزوں کی حرمت حکمی ہے، جو فسق (اللہ کی نافرمانی) کے سبب لازم آتی ہے۔ چنانچہ «اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہ» اسی وجہ سے حرام قرار پایا، یعنی جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اس حکم میں وہ قربانی بھی شامل ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے تقرب کی نیت پر دی گئی ہو۔ مثلاً ایسا جانور جو کسی قبر یا کسی خاص استھان پر جا کر ذبح کیا جائے، اگرچہ اسے ذبح کرتے وقت اللہ ہی کا نام لیا جاتا ہے مگر دل کے اندر کسی غیر اللہ کے تقرب کی خواہش کا چور موجود ہوتا ہے۔

            فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:  ’’لیکن (ان صورتوں میں بھی اگر) کوئی مجبور ہو جائے، نہ تو اس کے اندر ان کی طلب ہو اور نہ حد سے بڑھے، تو یقینا آپ کا رب بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔،،

            کسی غیر معمولی صورتِ حال میں ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھا کر اگر جان بچائی جا سکے تو مشروط طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔ 

UP
X
<>