May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 52

 وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ 

اور اُن لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے پکارتے رہتے ہیں ۔ اِن کے حساب میں جو اعمال ہیں اُن میں سے کسی کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اور تمہارے حساب میں جو اعمال ہیں اُن میں سے کسی کی ذمہ داری اُن پر نہیں ہے جس کی وجہ سے تم انہیں نکال باہر کرو، اور ظالموں میں شامل ہوجاؤ

آیت 52:   وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہ:  ’’اور مت دھتکاریے آپ ان لوگوں  کو جو پکارتے ہیں  اپنے رب کو صبح شام (اور)  اس کی رضا کے طالب ہیں ۔،،

            دراصل یہ اشارہ ہے اس معاملے کی طرف جو تقریباً تمام رسولوں  کے ساتھ پیش آیا۔ واقعہ یہ ہے کہ عام طور پر رسولوں  کی دعوت پر سب سے پہلے مفلس اور نادار لوگ ہی لبیّک کہتے رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں  کو نبی کی محفل میں  دیکھ کر صاحب ِثروت و حیثیت لوگ اس دعوت سے اس لیے بھی بدکتے تھے کہ اگر ہم ایمان لائیں  گے تو ہمیں  ان لوگوں  کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں  حضرت نوح کی قوم کا قرآن میں  خصوصی طور پر ذکر ہوا ہے کہ آپ کی قوم کے سردار کہتے تھے کہ اے نوح ہم توآپ کے پاس آنا چاہتے ہیں، آپ کے پیغام کو سمجھنا چاہتے ہیں،  لیکن ہم جب آپ کے اردگرد ان گھٹیا قسم کے لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں  تو ہماری غیرت یہ گوارا نہیں  کرتی کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھیں ۔ یہی بات قریش کے سرداران رسول اللہ سے کہتے تھے کہ آپ کے پاس ہر وقت جن لوگوں  کا جمگھٹا لگا رہتا ہے وہ لوگ ہمارے معاشرے کے پست طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ،  ان میں  سے اکثر ہمارے غلام ہیں ۔ ایسے لوگوں  کی موجودگی میں  آپ کی محفل میں  بیٹھنا ہمارے شایانِ شان نہیں ۔  ان کی ایسی باتوں کے جواب میں  فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی آپ ان کی باتوں  سے کوئی اثر نہ لیں ،  آپ خواہ مخواہ اپنے ان ساتھیوں  کو خود سے دور نہ کریں۔ اگروہ غریب ہیں یا ان کا تعلق پست طبقات سے ہے تو کیا ہوا، ان کی شان تو یہ ہے کہ وہ صبح شام اللہ کو پکارتے ہیں ،  اللہ سے مناجات کرتے ہیں ،  اُس کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں، اُس کے روئے انور کے طالب ہیں  اور اُس کی رضا چاہتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ میں  ایسے لوگوں کے بارے میں ہی فرمایا گیا ہے: مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ.  (آیت: 207)  کہ یہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنی جانیں  اور اپنی زندگیاں  اللہ کی رضا جوئی کے لیے وقف کر دی ہیں ۔

            مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ:   ’’آپ کے ذمے ان کے حساب میں  سے کچھ نہیں  ہے اور نہ آپ کے حساب میں  سے ان کے ذمے کچھ ہے،،

            یعنی ہر شخص اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہے اور ہر شخص کو اپنی کمائی خود کرنی ہے۔ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ آپ پر نہیں  ہے، آپ کے ذمے آپ کا فرض ہے،  وہ آپ ادا کرتے رہیں ۔ جو لوگ آپ کی دعوت پر ایمان لا رہے ہیں  وہ بھی اللہ کی نظر میں  ہیں اورجو اس سے پہلو تہی کر رہے ہیں ان کا حساب بھی وہ لے لے گا۔ ہر ایک کو اُس کے طرزِعمل کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ نہ آپ ان کی طرف سے جواب دہ ہیں  اور نہ وہ آپ کی طرف سے۔

            فَتَطْرُدَہُمْ فَتَـکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ:   ’’ تو اگر (بالفرض)  آپ انہیں  اپنے سے دُور کریں  گے تو آپ ظالموں  میں  سے ہو جائیں  گے۔،، 

UP
X
<>