May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 53

وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولواْ أَهَؤُلاء مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ 

اسی طرح ہم نے کچھ لوگوں کو کچھ دوسروں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ (ان کے بارے میں) یہ کہیں کہ : ’’ کیا یہ ہیں وہ لوگ جن کو ا ﷲ نے ہم سب کو چھوڑ کر احسان کرنے کیلئے چنا ہے ؟ ‘‘ کیا (جو کافر یہ بات کہہ رہے ہیں اُن کے خیال میں ) اﷲ اپنے شکر گذار بندوں کو دوسروں سے زیادہ نہیں جانتا ؟

آیت 53:   وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ:   ’’اور اسی طرح ہم نے ان میں  سے بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمایا ہے،،

            یہ اللہ کی آزمائش کا ایک طریقہ ہے۔  مثلاً ایک شخص مفلس اور نادار ہے،  اگر وہ کسی دولت مند اورصاحب منصب و حیثیت شخص کو حق کی دعوت دیتا ہے تو وہ اس پر حقارت بھری نظر ڈال کر مسکرائے گا کہ اس کو دیکھو اور اس کی اوقات کو دیکھو ، یہ سمجھانے چلا ہے مجھ کو! حالانکہ اصولی طور پر اس صاحب ِحیثیت شخص کو غور کرنا چاہیے کہ جو بات اس سے کہی جا رہی ہے وہ صحیح ہے یا غلط ،  نہ کہ بات کہنے والے کے مرتبہ و منصب کو دیکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  کہ اس طرح ہم لوگوں  کی آزمائش کر تے ہیں ۔

            لِّیَقُوْلُــوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْـنِنَا اَلَـیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ:   ’’تا کہ وہ کہیں  کہ کیا یہی لوگ ہیں  جن پر اللہ نے خاص انعام کیا ہے ہم میں  سے؟ تو کیا اللہ زیادہ واقف نہیں  ہے ان سے جو واقعتا اس کا شکر کرنے والے ہیں!؟،،

            صاحب حیثیت لوگ تو دعویٰ رکھتے ہیں  کہ اللہ کا انعام اور احسان تو ہم پر ہوا ہے،  دولت مند تو ہم ہیں ،  چودھراہٹیں  تو ہماری ہیں ۔ یہ جو گرے پڑے طبقات کے لوگ ہیں  ان کو ہم پر فضیلت کیسے مل سکتی ہے؟ مکہ کے لوگ بھی اسی طرح کی باتیں  کیا کرتے تھے کہ اگر اللہ نے اپنی کتاب نازل کرنی تھی،  کسی کو نبوت دینی ہی تھی تو اس کے لیے کوئی ’’رَجُل مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْم،،  منتخب کیا جاتا۔ یعنی یہ مکہ اور طائف جو دو بڑے شہر ہیں  ان میں  بڑے بڑے سردار ہیں ،  سرمایہ دار ہیں ،  بڑی بڑی شخصیات ہیں ،  ان میں  سے کسی کو نبوت ملتی تو کوئی بات بھی تھی۔ یہ کیا ہوا کہ مکہ کا ایک یتیم جس کا بچپن مفلسی میں  گزرا ہے،  جوانی مشقت میں  کٹی ہے ، جس کے پاس کوئی دولت ہے نہ کوئی منصب،  وہ نبوت کا دعویدار بن گیا ہے۔  اس قسم کے اعتراضات کا ایک اورمسکت جواب اسی سورۃ کی آیت : 126 میں  ان الفاظ میں  آئے گا: اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَـتَہ.  ’’اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا منصب کس کو دینا چاہیے،،۔  اور کس میں  اس منصب کو سنبھالنے کی صلاحیت ہے۔  جیسے طالوت کے بارے میں  لوگوں  نے کہہ دیا تھا کہ وہ کیسے بادشاہ بن سکتا ہے جبکہ اسے تو مال و دولت کی وسعت بھی نہیں  دی گئی: وَلَمْ یُــؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ.   (البقرۃ : 247)  ہم دولت مند ہیں ،  ہمارے مقابلے میں  اس کی کوئی مالی حیثیت نہیں ۔ اس کا جواب یوں  دیا گیا کہ طالوت کو جسم اور علم کے اندر کشادگی «بَسْطَۃً فِی الْْعِلْمِ وَالْجِسْمِ» عطا فرمائی گئی ہے۔ لہٰذا اس میں  بادشاہ بننے کی اہلیت تم لوگوں  سے زیادہ ہے۔

UP
X
<>