May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 57

قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ 

کہو کہ : ’’ مجھے اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل مل چکی ہے جس پر میں قائم ہوں ، اور تم نے اسے جھٹلادیا ہے۔ جس چیز کے جلدی آنے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے پاس موجود نہیں ہے۔ حکم اﷲ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ وہ حق بات بیان کر دیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ ‘‘

آیت 57:   قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ:   ’’کہہ دیجیے کہ میں  تو اپنے رب کی طرف سے ایک بڑی  بَـیِّنَہ  پر ہوں ،،

             یہ  «بیّنہ» ہے کیا؟ اس کی وضاحت سورہ ھود میں  آئے گی۔  جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے «بَیِّنَہ» دو چیزوں  سے مل کر بنتی ہے،  انسان کی فطرتِ سلیمہ اور وحی الٰہی۔  فطرتِ سلیمہ اور عقل سلیم انسان کے اندر اللہ کی طرف سے ودیعت کر دی گئی ہے جس کی بنا پر اس کو نیکی بدی اور اچھے برے کی تمیز فطری طور پر مل گئی ہے۔  اس کے بعد اگر کسی انسان تک نبی یا رسول کے ذریعے سے اللہ کی وحی بھی پہنچ گئی اور اس وحی نے بھی اُن حقائق کی تصدیق کر دی جن تک وہ اپنی فطرتِ سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں  پہنچ چکا تھا ، تو اس پر حجت تمام ہو گئی۔ اس طرح یہ دونوں  چیزیں  یعنی فطرتِ سلیمہ اور وحی الٰہی مل کراس شخص کے لیے  بیّنہ بن گئیں۔ پھر اللہ کا رسول اور وحی الٰہی دونوں  مل کر بھی لوگوں  کے حق میں  بَـیِّنَہ بن جاتے ہیں ۔ خود رسول کے حق میں  بَـیِّنَہ یہ ہے کہ آپ اپنی فطرتِ سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں  جن حقائق تک پہنچ چکے تھے وحی الٰہی نے آ کر ان حقائق کو اجاگر کر دیا۔ چنانچہ حضور  سے کہلوایا جا رہا ہے کہ آپ ان کو بتائیں  کہ میں  کوئی اندھیرے میں  ٹامک ٹوئیاں  نہیں  مار رہا،  میں  تو اپنے رب کی طرف سے بیّنہ پر ہوں۔ میں  جس راستے پر چل رہا ہوں  وہ بہت واضح اور روشن راستہ ہے، اور مجھ پر اس کی باطنی حقیقت بھی منکشف ہے۔

            وَکَذَّبْتُمْ بِہ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہ:   ’’اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے۔ میرے پاس وہ شے موجود نہیں ہے جس کی تم جلدی مچا رہے ہو۔،،

            وہ لوگ جلدی مچا رہے تھے کہ لے آئیے ہمارے اوپر عذاب۔ دس برس سے آپ ہمیں  عذاب کی دھمکیاں  دے رہے ہیں ،  اب جب کہ ہم نے آپ کو ماننے سے انکار کر دیا ہے تو وہ عذاب ہم پر آ کیوں  نہیں  جاتا؟ جواب میں  حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ انہیں  صاف الفاظ میں  بتا دیں  کہ عذاب کا فیصلہ میرے اختیار میں  نہیں  ہے ، وہ عذاب جب آئے گا ،  جیسا آئے گا ، اللہ کے فیصلے سے آئے گا اور جب وہ چاہے گا ضرور آئے گا۔

            اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ یَـقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِیْنَ:   ’’فیصلے کا اختیار کسی کو نہیں  سوائے اللہ کے۔ وہ حق کو کھول کر بیان کر دیتا ہے اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔،، 

UP
X
<>