May 6, 2024

قرآن کریم > الـصّـف >sorah 61 ayat 13

وَّاُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ

اور ایک اور چیز تمہیں دے گا جو تمہیں پسند ہے، (اور وہ ہے) اﷲ کی طرف سے مدد، اور ایک ایسی فتح جو عنقریب حاصل ہوگی ! اور (اے پیغمبر !) ایمان والوں کو (اس بات کی) خوشخبری سنا دو

آيت 13:  وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا:  «اور ايك اور چيز جو تمهيں بهت پسند هے».

يعنى اس جهاد ميں تمهيں دنيا كى كاميابى بھى مل سكتى هے. اگرچه تمهارى يه كاميابى الله تعالى كے هاں اس قدر اهم نهيں جس قدر تم اسے اهم سمجھتے هو. وه غلبه دين كے ليے تمهارى كوششوں كا محتاج نهيں. وه چاهے تو آنِ واحد ميں دين كو غالب كر دے. الله تعالى كے نزديك جو چيز اهم هے وه تمهارى جدوجهد اور اس جدوجهد ميں تمهارا جذبه ايثار وخلوص هے، اور يهى تمهارا اصل امتحان هے. اگر تم اس امتحان ميں كامياب هو جاتے هو تو الله كے هاں كامياب هو، چاهے دنيوى لحاظ سے تم ناكام هى رهو. ليكن الله كو معلوم هے كه بربنائے طبعِ بشرى تم لوگ اپنى اس جدوجهد كے مثبت نتائج اس دنيا ميں بھى ديكھنا چاهتے هو اور دنيوى فتح حاصل هونے پر تم لوگ بهت خوش هوتے هو، اس ليے الله تعالى تمهارى خوشى كے ليے وه بھى تمهيں عطا فرمائے گا.

نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ:  «الله كى طرف سے مدد اور قريبى فتح».

بس اب الله تعالى كى مدد آيا هى چاهتى هے اور دنيوى فتح بھى تمهارے قدم چومنے هى والى هے. يه كس مدد اور كون سى فتح كى بشارت هے؟ يه سمجھنے كے ليے غزوه احزاب كے حالات وواقعات كو ايك دفعه پھر سے ذهن ميں تازه كر ليجيے. اس اعتبار سے يوں سمجھيے كه سورة الصف كى حيثيت سورة الاحزاب كے ضميمے كى سى هے.

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ:  «اور (اے نبى صلى الله عليه وسلم) آپ مؤمنين كو خوش خبرى سنا ديجيے».

غزوه احزاب كے بعد حضور صلى الله عليه وسلم نے صحابه رضى الله عنهم كو يه خوشخبرى ان الفاظ ميں سنائى تھى:  «لَنْ تَغْزُوَكُمْ قُرَيْشٌ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَلَكِنَّكُمْ تَغْزُوْهُمْ» (تفسير ابن كثير: 6/ 396) كه اب اس سال كے بعد قريش تم پر كبھى چڑھائى نهيں كر سكيں گے، بلكه آينده تم لوگ ان پر چڑھائى كرو گے. يه ان كى طرف سے آخرى حمله تھا، كفر كى كمر ٹوٹ چكى هے اور كفار حوصله هار گئے، اب اقدام تمهارى طرف سے هو گا. چناں چه اس كے بعد اگلے سال 6 هجرى ميں حضور صلى الله عليه وسلم نے چوده سو صحابه كے ساتھ عمرے كى نيت سے مكه كا سفر اختيار فرمايا، جس كے نتيجے ميں مسلمانوں اور قريش كے مابين حديبيه كے مقام پر صلح كا معاهده طے پايا. الله تعالى نے اس معاهدے كو فتح مبين قرار ديا: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا﴾ {الفتح: 1}  «يقينًا هم نے آپ كو ايك بڑى روشن فتح عطا فرمائى هے».

دوسرى طرف اس بشارت كا تعلق آخرت سے بھى هے كه اپنے مال وجان كے ساتھ الله كى راه ميں جهاد كے نتيجے ميں مؤمنين صادقين كو جنّت كى نعمتيں بھى مليں گى اور الله كے هاں انهيں ايك خاص مقام بھى عطا هو گا. اور وه هو گا الله كے مددگار هونے كا مقام!

يهاں پر يه بات خصوصى طور پر لائقِ توجه هے كه ان آيات ميں عذابِ اليم سے چھٹكارے كو ايمانِ حقيقى اور جهاد في سبيل الله كے ساتھ مشروط كر ديا گيا هے. آيت: 10 ميں يه بات جس دوٹوك انداز ميں واضح كى گئى هے اسے فزيالوجى كى زبان ميں «all or none law» كهتے هيں. يعنى ايسى صورت حال جس ميں كوئى چيز واقع هوتى هے تو پورى هوتى هے اور اگر نهيں واقع هوتى تو بالكل نهيں هوتى. اس ميں كوئى درميانى راسته يا تناسب ممكن نهيں هوتا. همارے ارادى عضلات (voluntary muscles) كے سكڑنے كا معامله ايسا هى هے، اگر محرك (stimulus) پورا مل جاتا هے تو متعلقه muscle كى پورى contraction هوتى هے اور اگر stimulus كم هوتا هے تو contraction بالكل نهيں هوتى. اس مفهوم ميں آيت: 10 تا 13 كے مضمون كا خلاصه يه هے كه جو لوگ يه راسته اختيار كريں گے ان كے سب گناه بھى معاف هو جائيں گے (بشرطيكه الله تعالى كے هاں ان كے ايمان وعمل كو درجه قبوليت مل جائے.) انهيں عذابِ اليم سے چھٹكارا بھى ملے گا اور جنت عدن ميں ٹھكانه بھى نصيب هو گا. صرف يهى نهيں، بلكه دنيا ميں انهيں الله كى مدد سے فتح بھى ملے گى اور سب سے بڑى بات يه كه وه الله تعالى كے مددگار قرار پائيں گے..... اس كے برعكس اگر هم لوگ ايمان كے دعوے تو بهت كريں اور الله ورسول سے محبت كے نعرے بھى لگائيں، ليكن مذكوره دو شرائط (ايمانِ حقيقى اور جهاد فى سبيل الله) پورى كرنے ميں سنجيده نه هوں تو هميں معلوم هونا چاهيے كه همارا رويّه الله تعالى كى بيزارى كو دعوت دينے كے مترادف هے: ﴿كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾ {الصف: 3}. «بڑى شديد بيزارى كى بات هے الله كے نزديك كه تم وه كهو جو كرتے نهيں». چنانچه جو لوگ مذكوره شرائط كا حق ادا كيے بغير هى سمجھتے هيں كه وه آخرت ميں نجات پا جائيں گے وه ايك خود ساخته خيال كے سهارے زندگى بسر كر رهے هيں اور اپنى سوچ سے يه ثابت كرنا چاهتے هيں كه ان آيات كے الفاظ كى كوئى اهميت نهيں هے. يعنى يه «معاذ الله» كلام مهمل هے.

UP
X
<>