May 5, 2024

قرآن کریم > الـتغابن >sorah 64 ayat 14

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ۚ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 

اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دُشمن ہیں ، اس لئے اُن سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم معاف کردو، اور درگذر کرو، اور بخش دو تو اﷲ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے

آيت 14:   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ:  «اے ايمان كے دعوے دارو! تمهارى بيويوں اور تمهارى اولاد ميں سے بعض تمهارے دشمن هيں، سو ان سے بچ كر رهو».

يه بهت مشكل اور نازك معامله هے. گذشته سورت ميں رسول الله صلى الله عليه وسلم كو منافقين كى عداوت سے بھى انهى الفاظ ميں خبردار كيا گيا تھا: ﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ﴾ {المنافقون: 4} كه يه لوگ تمهارے دشمن هيں، ان سے بچ كر رهيے! جس طرح منافقين كى دشمنى تمهارے ليے نقصان ده هے، اسى طرح تمهارے بيوى بچوں كى محبت بھى تمهيں نقصان پهنچا سكتى هے. نقصان بے شك كسى كى دشمنى كى وجه سے هو يا محبت كى وجه سے، نقصان هى هے، اور جو كوئى بھى آپ كو نقصان پهنچانے كے درپے هو وه ظاهر هے آپ كا دشمن هے. بيوى كى بے جا فرمائشيں اور بچوں كى حد سے بڑھى هوئى ضروريات اگر حلال كى كمائى سے پورى نهيں هوں گى تو انسان كيا كرے گا؟ ظاهر هے حرام ميں منه مارے گا. اور اگر كوئى يه نهيں كرے گا تو ڈالر اور پيٹرو ڈالر كمانے كے چكر ميں ملك سے باهر چلا جائے گا. پيچھے سے بيوى بچے كيا كرتے هيں؟ بوڑھے والدين كس حال ميں هيں؟ انهيں بيمارى كى حالت ميں ڈاكٹر كے پاس كون لے جائے گا؟ اس كى بلا جانے! اس كى اپنى مجبورى هے، مكان بنانا هے، بچوں كو اعلى تعليم دلوانى هے، ان كى شادياں كرنى هيں اور اس سب كچھ كے ليے سرمايه چاهيے. اور ظاهر هے سرمايه گھر بيٹھے تو نهيں ملتا، نه هى حلال كى كمائى سے ملتا هے.

اگر كسى كو الله تعالى نے دين كى سمجھ اور آخرت كى فكر عطا كى هے اور وه حرام سے بچتے هوئے روكھى سوكھى كھا كر گزاره كرنا چاهتا هے تو اسے صبح شام بيوى كے طعنے چين لينے نهيں ديتے كه تمهارا دماغ خراب هو گيا هے، تمهيں بچوں كے مستقبل كى فكر بھى نهيں. ذرا همسائے سے هى سبق حاصل كر ليتے، كيا وه مسلمان نهيں هيں؟ وه تم سے زياده نمازيں پڑھتے هيں، ان كى داڑھى بھى تم سے لمبى هے، مگر وه دين كے ساتھ ساتھ دنيا كو بھى نبھا رهے هيں. ذرا ديكھو ان كے بيوى بچے كيسے عيش كر رهے هيں اور كون نهيں جانتا كه يه سب كچھ اوپر كى كمائى سے هو رها هے. اب كيا تم ان سے بھى بڑے ديندار هو كه جو سب كچھ ان كے ليے حلال هے تم اسے اپنے اوپر خواه مخواه حرام كر كے بيٹھ گئے هو؟ وغيره وغيره.

آج همارے هاں كے روايتى مسلمانوں كو تو بيوى بچوں كى دشمنى والى يه بات سمجھ ميں نهيں آئے گى، ليكن اگر كوئى بنده مؤمن الله تعالى كى توفيق سے كسى انقلابى تحريك كے كاركن كى حيثيت سے اقامتِ دين كى جدوجهد ميں مصروف هے تو اس پر يه حقيقت بهت جلد واضح هو جائے گى كه اس راستے ميں بيوى بچوں كى محبت كس طرح پاؤں كى زنجير بنتى هے. يه معامله چونكه بهت نازك اور حساس هے اس ليے اس سخت حكم كے بعد اگلے جملے ميں اس ضمن ميں نرمى اختيار كرنے كى هدايت بھى كى جا رهى هے. قوانين اور احكام كا يه توازن كلامِ الهى كا خاص معجزه هے اور اس اعتبار سے يه آيت اعجازِ قرآن كى بهت بڑى مثال هے. ايك طرف متنبه بھى كر ديا كه تمهيں اپنے اهل وعيال كے معاملے ميں سانپ كى طرح هوشيار رهنے كى ضرورت هے. ايسا نه هو كه بيوى اور اولاد كى محبت تمهيں كسى غلط راستے پر ڈال دے. ليكن اگلے جملے ميں عفو ودرگزر كا حكم بھى دے ديا كه تم اپنے مؤقف پر قائم رهتے هوئے اپنے اهل وعيال كے معاملات كو نرمى اور حكمت سے نپٹاؤ. ايسا نه هو كه تمهارا گھر صبح وشام ميدانِ جنگ كا نقشه پيش كرنے لگے:

وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ:  «اور اگر تم معاف كر ديا كرو اور چشم پوشى سے كام لو اور بخش ديا كرو تو الله بهت بخشنے والا، نهايت مهربان هے».

          اگر تم چاهتے هو كه الله تعالى تمهارے ساتھ بھى عفو ودرگزر كا معامله فرمائے تو تم بھى اپنے اهل وعيال كے ساتھ ايسا هى رويه اختيار كرو. سورة النور كى اس آيت ميں بھى بالكل يهى اسلوب نظر آتا هے: ﴿وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾    «اور چاهيے كه وه معاف كر ديں اور درگزر سے كام ليں. كيا تم نهيں چاهتے كه الله تمهيں معاف كرے؟ اور الله بهت بخشنے والا، نهايت مهربان هے». يه آيت واقعه افك كے حوالے سے حضرت ابو بكر صديق رضى الله عنه كے بارے ميں نازل هوئى تھى. آپ نے اپنے ايك نادار رشته دار (حضرت مسطح رضى الله عنه) كى كفالت كا ذمه لے ركھا تھا، ليكن جب آپ كو معلوم هوا كه حضرت عائشه رضى الله عنها پر كيچڑ اچھالنے ميں اس كا بھى حصه تھا تو آپ رضى الله عنه نے اس كى مدد سے هاتھ روك ليا. اس پر يه آيت نازل هوئى كه اگر تم خود الله سے معافى كے خواستگار هو تو تم اسے معاف كر دو. بهرحال ان دونوں آيات سے يهى ثابت هوتا هے كه نه صرف الله تعالى خود بهت معاف اور درگزر كرنے والا هے بلكه اپنے بندوں سے بھى وه ايسے هى رويّے كو پسند كرتا هے.

          زير مطالعه آيات ميں اب تك ايمان كے چار ثمرات كا ذكر هوا هے. ان ميں سے پهلے تين كا تعلق تو ايك فرد كى انفرادى زندگى سے هے، جبكه چوتھا ثمره فرد كے گرد بننے والى اجتماعيت كے پهلے حلقے يعنى اس كے افراد خانه سے متعلق هے. انفرادى سطح كے تين ثمرات كو ميں نے بنده مؤمن كى شخصيت كے چمن ميں كھلنے والے خوبصورت پھولوں سے تشبيه دى هے. ان ميں سے دو پھول تو وه هيں جو اس كے دل كے اندر كھلتے هيں اور باهر سے هر كسى كو نظر نهيں آتے، يعنى خوئے تسليم ورضا اور توكل على الله. جبكه تيسرا پھول الله اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم كى اطاعت كا پھول هے، جو شخصيت كے خارج ميں كھلتا هے. ظاهر هے  ﴿أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾  كے حكم ميں تو پورے كے پورے دين كا احاطه هو جاتا هے. اس ليے معاشرے ميں رهتے هوئے يه پھول بجا طور پر بنده مؤمن كى شخصيت كا طره امتياز بنتا هے.

ايمان كے چوتھے ثمرے كا تعلق بنده مؤمن كى عائلى زندگى سے هے. اس حوالے سے آيت زير مطالعه هميں انتهائى متوازن اور معتدل رويے كا شعور عطا كرتى هے. اس نصيحت پر عمل كرتے هوئے هميں اهل وعيال كى طبعى محبتوں كے منفى اثرات سے هوشيار بھى رهنا هے اور ساتھ هى ساتھ عفو ودرگزر كى حكمت عملى اپناتے هوئے گھر كى فضا كو محاذ آرائى اور نفرت كے تكدر سے محفوظ ركھنے كى كوشش بھى كرتے رهنا هے. اب اسى حوالے سے دوسرى اصولى اور انتهائى اهم بات:

UP
X
<>