May 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 158

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

 (اے رسول ! ان سے) کہو کہ : ’’ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اُس اﷲ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں ا ور زمین کی سلطنت ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ اب تم اﷲ پر اور اُس کے رسو ل پر ایمان لے آؤ جو نبی امی ہے، اور جو اﷲ پر اور اُس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اور اُس کی پیروی کرو، تاکہ تمہیں ہدایت حاصل ہو۔ ‘‘

            اب اگلی آیت کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ ایک تو گزشتہ آیات کے مضمون کا اس آیت کے ساتھ ربط کا معاملہ ہے۔ اس ربط کو یوں سمجھنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ کے ذکر کے بعد انباء الرسل کے اس سلسلے کو نبی آخر الزماں کی بعثت تک لانے میں بہت تفصیل درکار تھی۔ اس تفصیل کو چھوڑ کر اب براہِ راست آپ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کو بتا دیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تمام  بنی نوع انسان کی طرف۔ چنانچہ پچھلی آیات میں حضرت موسیٰ  کے ذکر اور تورات و انجیل میں نبی آخرالزماں کے بارے میں بشارتوں کے حوالے سے اس آیت کا سیاق و سباق گویا یوں ہو گا کہ اے محمد اب آپ   علی الاعلان کہہ دیجیے کہ میں ہی وہ رسول ہوں جس کاذکر تھا تورات اور انجیل میں ، مجھ پر ہی ایما ن لانے کی تاکید ہوئی تھی موسیٰ کے پیروکاروں کو‘ میری ہی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے وعدہ ہے اللہ کی خصوصی رحمت کا‘ اور اب میری ہی نصرت اور اطاعت کا حق ادا کرنے والوں کو ضمانت ملے گی ابدی و اخروی فلاح کی!

            دوسری اہم بات یہاں یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ اس سورۃ میں ہم نے اب تک جتنے رسولوں کا تذکرہ پڑھا ہے، ان کا خطاب ’’یَا قَوْمِ‘‘ (اے میری قوم کے لوگو!) کے الفاظ سے شروع ہوتا تھا، مگر محمد عربی کی یہ امتیازی شان ہے کہ آپ کسی مخصوص قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوئے بلکہ آپ کی رسالت آفاقی اور عالمی سطح کی رسالت ہے اور آپ پوری بنی نوعِ انسانی کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 21 میں ’’عبادتِ رب‘‘ کا حکم جس آفاقی انداز میں دیا گیا ہے اس میں بھی اسی حقیقت کی جھلک نظر آتی ہے: یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَـتَّقُوْنَ۔ اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں :

 آیت 158:  قُلْ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَـیْکُمْ جَمِیْعًا:  ’’ (اے نبی!) کہہ دیجیے اے لوگو! میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘

            یہ بات مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں قرآن حکیم کے پانچ مقامات پر دہرائی گئی ہے کہ نبی اکرم کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے۔ ان میں سورۃ سبا کی آیت 28 سب سے نمایاں ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا.  ’’ہم نے نہیں بھیجا ہے (اے محمد) آپ کو مگر پوری نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر۔‘‘

            الَّذِیْ لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ہُوَ یُحْی وَیُمِیْتُ:  ’’(اُس اللہ کا) جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ رکھتا ہے اور وہی موت وارد کرتا ہے۔‘‘

            فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ:  ’’تو ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر جو نبی اُمی ہے، جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اُس کے سب کلاموں پر‘ اور اس کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘

            یہ گویا اعلانِ عام ہے محمد رسول اللہ کی طرف سے کہ میری بعثت اُس وعدے کے مطابق ہوئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ  سے کیاتھا۔ حضرت موسیٰ کے ذکر کے بعد کی یہ آیات گویا اس خطاب کی تمہید ہے جو یہودِ مدینہ سے ہونے والا تھا۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ سورت ہجرت سے قبل نازل ہوئی تھی اور اس کے نزول کے فوراً بعد ہجرت کا حکم آنے کو تھا‘ جس کے بعد دعوت کے سلسلے میں حضور کا مدینہ کے یہودی قبائل سے براہِ راست سابقہ پیش آنے والا تھا۔ مکی قرآن میں ابھی تک یہود سے براہِ راست خطاب نہیں ہوا تھا، ابھی تک یا تو اہل مکہ مخاطب تھے یا حضور، یا پھر آپ کی وساطت سے اہل ایمان۔ لیکن اب انداز ِ بیان میں جو تبدیلی آ رہی ہے اس کا اصل محل ہجرت کے بعد کا ماحول تھا۔ 

UP
X
<>