May 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 157

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

جو اُس رسول، یعنی نبیِ اُمی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے، جو اُنہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور اُن کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور اُن پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اُتار دے گا جو اُن پر لدے ہوئے تھے۔ چنانچہ جو لوگ اُس (نبی) پر ایمان لائیں گے، اُس کی تعظیم کریں گے، اُس کی مدد کریں گے، اور اُس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے، اُس کے پیچھے چلیں گے، تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ ‘‘

آیت 157:  اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ:  ’’جو اتباع کریں گے رسولِ نبی اُمی کا‘‘

            یعنی ہمارے نبی اُمی کا اتباع کریں گے جن کو رسول بنا کر بھیجا جائے گا۔ محمد عربی نے دُنیوی اعتبار سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ آپ دُنیوی معیار کے مطابق پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اس لحاظ سے آپ بھی اُمی تھے اور جن لوگوں میں آپ کو مبعوث کیا گیا وہ بھی اُمی تھے‘ کیونکہ اُن لوگوں کے پاس اس سے پہلے کوئی کتاب تھی نہ کوئی شریعت۔

            الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ:  ’’جسے پائیں گے وہ لکھا ہوا اپنے پاس تورات اور انجیل میں‘‘

            یعنی آخری نبی کے بارے میں پیشین گوئیاں، آپ کے حالات، اور آپ کے بارے میں واضح علامات اُن کو تورات اور انجیل دونوں میں ملیں گی۔

            یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰٹہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ:  ’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیں گے، تمام برائیوں سے روکیں گے اور ان کے لیے تمام پاک چیزیں حلال کر دیں گے‘‘

            بنی اسرائیل پر کچھ چیزیں ان کی شرارتوں کی وجہ سے بھی حرام کر دی گئی تھیں، جیسا کہ سورۃ النساء (آیت: 160) میں ہم پڑھ آئے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ نبی اُمی ان پر سے ایسی تمام بندشیں اٹھا دیں گے اور تمام پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال کردیں گے۔

            وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ:  ’’اور حرام کر دیں گے ان پر نا پاک چیزوں کو، اور ان سے اتارد یں گے ان کے بوجھ اور طوق جو ان (کی گردنوں) پر پڑے ہوں گے۔‘‘

            یہ بوجھ اور طوق وہ بے جا اور خود ساختہ پابندیاں اور رسومات بھی ہیں جو معاشرے کے اندر کسی خاص طبقہ کے مفادات یا نمود و نمائش کی خواہش کی وجہ سے رواج پاتی ہیں ، بعد میں غریب لوگوں کو انہیں نبھانا پڑتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب ان کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کی بلند ترین سطح پر بھی بڑی بڑی قباحتیں اور لعنتیں جنم لیتی ہیں جن کے بوجھ تلے مختلف اقوام بری طرح پس جاتی ہیں۔ مثلاً بادشاہت کا جبر‘ جاگیرداری کا استحصالی نظام‘ سیاسی و معاشی غلامی‘ رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانیت میں تفریق وغیرہ۔ تو اس آیت میں بشارت دی جا رہی ہے کہ نبی آخر الزماں  آئیں گے اور انسانیت کو غلط رسومات، خود ساختہ عقائد اور نظام ہائے باطلہ کے بوجھوں سے نجات دلا کر عدل اور قسط کا نظام قائم کریں گے۔

            اس کے بعد حضورکے ساتھ تعلق کی شرائط مذکور ہیں جن میں سے ہر شرط پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع کو تفصیلی طور پر سمجھنے کے لیے میرے کتابچے بعنوان: ’’نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی بنیادیں‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

            فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہ:  ’’تو جو لوگ آپ پر ایمان لائیں گے‘‘

            یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ آپ پر ایمان لانے کے دو بنیادی تقاضے ہیں، پہلا تقاضا ہے آپ کی اطاعت اور دوسرا تقاضا ہے آپ کی محبت۔ ان دونوں تقاضوں کے بارے میں دو احادیث ملاحظہ کیجیے۔ پہلی حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: « لَا یُـؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَـکُوْنَ ھَوَاہُ تَـبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہ»  ’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہے جب تک کہ اس کی خواہش نفس تابع نہ ہو جائے اس چیز کے جو میں لے کر آیا ہوں‘‘ ۔ یعنی جو احکام اور شریعت حضور لے کر تشریف لائے ہیں، اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس سب کچھ کو تسلیم کر کے اس پر عمل کرنا ہو گا۔ دوسری حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت انس بن مالک ہیں۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: « لَا یُـؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَـیْہِ مِنْ وَّالِدِہ وَوَلَدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ»  ’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے  محبوب تر نہ ہوجاؤں اس کے باپ‘ بیٹے اور تمام انسانوں سے‘‘۔ چنانچہ یہ دونوں تقاضے پورے ہوں گے تو آپ پر ایمان کا دعویٰ حقیقت بنے گا۔ ایک غایت درجہ میں آپ کا اتباع اور اطاعت، دوسرے غایت درجے میں آپ کی محبت۔

            وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ:  ’’اور آپ  کی تعظیم کریں گے اور آپ کی مدد کریں گے‘‘

            جب مذکورہ بالا دو تقاضے پورے ہوں گے تو ان کے لازمی نتیجے کے طور پر دلوں میں رسول اللہ کی تعظیم پیدا ہو گی‘ آپ کی عظمت دلوں پر راج کرے گی۔ جب اور جہاں آپ کا نام مبارک سنائی دے گا بے ساختہ زبان پر درود و سلام آ جائے گا۔ آپ کا فرمان سامنے آنے پر منطق و دلائل کا سہارا چھوڑ کر سر تسلیم خم کر دیا جائے گا۔ حضور کے ادب و احترام کے سلسلے میں یہ اصول ذہن نشین کر لیجئے کہ اگر کہیں کسی مسئلے پر بحث ہو رہی ہو، دونوں طرف دلائل کو دلائل کاٹ رہے ہوں اور ایسے میں اگر کوئی کہہ دے کہ رسول اللہ نے اس ضمن میں یوں فرمایا ہے تو حدیث کے سنتے ہی فوراً زبان بند ہو جانی چاہیے۔ ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ آپ کا فرمان سن لینے کے بعد بھی کسی معاملے میں رائے زنی کرے۔ بعد میں تحقیق کی   جا سکتی ہے کہ آپ سے منسوب کر کے جو فرمان سنایا گیا ہے درحقیقت وہ حدیث ہے بھی یا نہیں اوراگر حدیث ہے تو روایت و درایت کے اعتبار سے اس کا کیا مقام ہے۔ حدیث صحیح ہے یا ضعیف!یہ سب بعد کی باتیں ہیں، لیکن حدیث سن کر وقتی طور پر چپ ہو جانا اور سر تسلیم خم کر دینا آپ کے ادب کا تقاضا ہے۔

            ’’ وَنَصَرُوْہُ‘‘ کے ضمن میں یہ نکتہ اہم ہے کہ نبی مکرم کو کس کام میں مدد درکار ہے؟ کیا آپ کو اپنے کسی ذاتی کام کے لیے مدد چاہیے؟ آپ نے کوئی ذاتی سلطنت و حکومت تو قائم نہیں کی‘ جس کے قیام و استحکام کے لیے آپ کو مدد کی ضرورت ہوتی۔ آپ کی کوئی ذاتی جاگیر یا جائیداد بھی نہیں تھی‘ جس کو سنبھالنے کے لیے آپ کو مدد درکار ہوتی۔ دراصل آپ کو اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے مدد چاہیے تھی جس کے لیے آپ بھیجے گئے تھے اور وہ تھا غلبۂ حق اور اقامت ِدین: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْہُدی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ. (الصف: 9)۔ دین حق کے غلبے کے لیے کی جانے والی جاں گسل جدوجہد میں آپ کو مدد گاروں کی ضرورت تھی اور اس کے لیے آپ کی طرف سے ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ؟‘‘ کی صلائے عام تھی‘ کہ مجھے اللہ کا دین غالب کرنا ہے‘ یہ میرا فرضِ منصبی ہے، کون ہے جو اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے اور میرا مدد گار بنے؟ چنانچہ آپ نے اپنی محنت، صحابہ کرام  کی قربانیوں اور اللہ کی نصرت سے جزیرہ نمائے عرب میں دین کو غالب کر کے اپنے مشن کی تکمیل کر دی۔ آپ کے بعد کچھ عرصہ دین غالب رہا، پھر مغلوب ہو گیا اور آج تک مغلوب ہے۔ آج دنیا میں کہیں بھی دین غالب نہیں ہے۔ لہٰذا اب دین کو ساری دنیا میں غالب کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کے حوالے سے آپ کا مشن آج بھی زندہ ہے، یہ میدان اب بھی کھلا ہے۔ آج بھی حضور کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ.  (الصف: 14) کا قرآنی حکم آج بھی ہمیں پکار رہا ہے۔

            وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓ:  ’’ اور پیروی کریں گے اُس نور کی جو آپ کے ساتھ نازل کیا جائے گا‘‘

            یہ گویا اس کٹھن مشن کی تکمیل کا راستہ بتایا گیا ہے۔ دین کے غلبے کی تکمیل قرآن کے ذریعے سے ہو گی‘ یعنی تذکیر بالقرآن‘ تبشیر بالقرآن‘ تبلیغ بالقرآن، انذار بالقرآن، تعلیم بالقرآن وغیرہ۔ جیسے محمد عربی نے قرآن کے ذریعے سے لوگوں کا تزکیہ کیا: یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ. (الجمعہ: 2) اس طرح آج بھی ضرورت ہے کہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو ترغیب دی جائے‘ ان کے دلوں کی صفائی کی جائے، انہیں جہالت کے اندھیروں سے ہدایت کے اُجالے کی طرف لایا جائے‘ تاریک دلو ں کے اندر ایمان کی شمعیں روشن کی جائیں۔ پھر ان لوگوں کو ایک مشن پر اکٹھا کیا جائے، انہیں منظم کیا جائے‘ ان میں منزل کی تڑپ پیدا کی جائے اور پھر باطل سے ٹکرا کر اس کو پاش پاش کر دیا جائے۔ یہ ہے آپ کی مدد کرنے کا صحیح طریقہ‘ اور یہ ہے اس نور (قرآن) کی پیروی کرنے کا معروف راستہ۔ اور جو لوگ اس راستے پر چلیں گے ان کے بارے میں فرمایا:

            اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ:  ’’وہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔‘‘ 

UP
X
<>