May 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 156

وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاء وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ 

اورہمارے لئے اس دُنیا میں بھی بھلائی لکھ دیجئے، اور آخرت میں بھی۔ ہم (اس غرض کیلئے) آپ ہی سے رُجوع کرتے ہیں ۔ ‘‘ اﷲ نے فرمایا : ’’ اپنا عذاب تو میں اُسی پر نازل کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں ۔ اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے، وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ چنانچہ میں یہ رحمت (مکمل طور پر) اُن لوگوں کیلئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں ، اور زکوٰۃ اداکریں ، اورجو ہماری آیتوں پر ایمان رکھیں

آیت 156:  وَاکْتُبْ لَـنَا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ:  ’’اور تو ہمارے لیے اس دُنیا (کی زندگی) میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی‘‘

            حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے جو دعا کی، یہ وہی الفاظ ہیں جو سورۃ البقرۃ میں مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَاحَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

            اِنَّا ہُدْنَآ اِلَیْکَ:  ’’ہم تیری جناب میں رجوع کرتے ہیں۔‘‘

            یعنی ہم سے جو خطا ہو گئی ہے اس کا اعتراف کرتے ہوئے ہم معافی چاہتے ہیں۔

            قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہ مَنْ اَشَآءُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ:  ’’(اللہ نے) فرمایا کہ میں عذاب میں مبتلا کروں گا جس کو چاہوں گا، اور میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے۔‘‘

            یعنی میری ایک رحمت تو وہ ہے جو ہر شے کے شامل حال ہے‘ ہر شے پر محیط ہے۔ ہر شے کا وجود اور بقا میری رحمت ہی سے ممکن ہے۔ یہ پوری کائنات اور اس کا تسلسل میری رحمت ہی کا مرہونِ منت ہے۔ میری اس رحمت عامہ سے میری تمام مخلوقات حصہ پا رہی ہیں، لیکن جہاں تک میری رحمت ِخاصہ کا تعلق ہے جس کے لیے تم لوگ ابھی سوال کر رہے ہو:

            فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ:  ’’تو اسے میں لکھ دوں گا ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ کی روش اختیار کریں گے، زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور جو لوگ ہماری آیات پر پختہ ایمان رکھیں گے۔‘‘ 

UP
X
<>