May 18, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 161

وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُواْ هَذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُواْ حِطَّةٌ وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ 

اور وہ وقت یاد کرو جب اُن سے کہا گیا تھا کہ : ’’ اِس بستی میں جاکر بس جاؤ، اور اُس میں جہاں سے چاہو کھاؤ، اور یہ کہتے جانا کہ (یا اﷲ !) ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں ، اور (بستی کے) دروازے میں جھکے ہوئے سروں کے ساتھ داخل ہونا، تو ہم تمہاری خطائیں معاف کرد یں گے، (اور) نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔ ‘‘

آیت 161:  وَاِذْ قِیْلَ لَہُمُ اسْکُنُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ وَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ:  ’’اور یاد کرو جب ان سے کہا گیا تھا کہ آباد ہو جاؤ اس بستی میں اور اس میں سے کھاؤ (پیو) جہاں سے بھی چاہو‘‘

            اس شہر کا نام ’’اریحا‘‘ تھا‘ جو آج بھی جریکو(Jericho) کے نام سے موجود ہے۔ یہ فلسطین کا پہلا شہر تھا جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں باقاعدہ جنگ کر کے فتح کیا تھا۔

            وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا:  ’’اور استغفار کرتے رہو‘ اور شہر کے دروازے میں سر جھکا کر داخل ہونا‘‘

            انہیں حکم دیا گیا تھا کہ جب شہر میں داخل ہوں تو «حِطَّۃٌ» کا وِرد کرتے ہوئے داخل ہوں۔ اس لفظ کے معنی استغفار کرنے کے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں دوسرا حکم یہ تھا کہ جب تم فاتح کی حیثیت سے شہر کے دروازے سے داخل ہو تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اختیار کرتے ہوئے سجدہ شکر ادا کرنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس وقت تکبر سے تمہاری گردنیں اکڑی ہوئی ہوں۔

            نَّـغْفِرْ لَـکُمْ خَطِیْٓئٰتِکُمْ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ:  ’’ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے‘ اور ہم محسنین کو اور بھی زیادہ عطا کریں گے۔‘‘

            اس طرح سے ہم نہ صرف یہ کہ تمہاری خطائیں لغزشیں اور فروگزاشتیں معاف کر دیں گے، بلکہ تم میں سے مخلص اور نیک لوگوں کو مزید نوازیں گے‘ ان کے درجات بلند کریں گے اور ان کو اونچے اونچے مراتب عطا کریں گے۔ 

UP
X
<>