May 7, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 172

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتَ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ

اور (اے رسول ! لوگوں کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے آدم کے بیٹوں کی پشت سے اُن کی ساری اولاد کو نکالا تھا، اور اُن کو خود اپنے اُوپر گواہ بنایا تھا، (اور پوچھا تھا کہ :) ’’ کیا میں تمہارا رَبّ نہیں ہوں ؟ ‘‘ سب نے جواب دیا تھا کہ : ’’ کیوں نہیں ؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ ‘‘ (اور یہ اقرار ہم نے اس لئے لیا تھا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ : ’’ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔ ‘‘

آیت 172:  وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ:  ’’اور یاد کرو جب نکالا آپ کے رب نے تمام بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی نسل کو‘‘

            یہ واقعہ عالم ِارواح میں وقوع پذیر ہوا تھا جبکہ انسانی جسم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اہل ِعرب جو اُس وقت قرآن کے مخاطب تھے اُن کی اُس وقت کی ذہنی استعداد کے مطابق یہ ثقیل مضمون تھا۔ ایک صورت تو یہ تھی کہ انہیں پہلے تفصیل سے بتایا جاتا کہ انسانوں کی پہلی تخلیق عالم ِارواح میں ہوئی تھی اور دنیا میں طبعی اجسام کے ساتھ یہ دوسری تخلیق ہے اور پھر بتایا جاتا کہ یہ میثاق عالم ِارواح میں لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بجائے اس مضمون کو آسان پیرائے میں بیان کرنے کے لیے عام فہم الفاظ عام فہم انداز میں استعمال کیے گئے کہ جب ہم نے نسل ِآدم کی تمام ذریت کو ان کی پیٹھوں سے نکال لیا۔ یعنی قیامت تک اس دنیا میں جتنے بھی انسان آنے والے تھے‘ ان سب کی ارواح وہاں موجود تھیں۔

            وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ:  ’’اور ان کو گواہ بنایا خود ان کے اوپر‘ (اور سوال کیا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟‘‘

            یعنی پوری طرح ہوش و حواس اور خود شعوری (self conciousness) کے ساتھ یہ اقرار ہوا تھا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے بھی ہو چکی ہے کہ انسان کی خود شعوری (self conciousness) ہی اسے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے جن میں شعور (conscious) تو ہوتا ہے لیکن خود شعوری نہیں ہوتی۔ انسان کی اس خود شعوری کا تعلق اس کی روح سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص صرف انسان میں پھونکی ہے۔ چنانچہ جب یہ عہد لیا گیا تو وہاں تمام ارواح موجود تھیں اور انہیں اپنی ذات کا پورا شعور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواحِ انسانیہ سے یہ سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب، تمہارا مالک‘ تمہارا آقا نہیں ہوں؟

            قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا:  ’’انہوں نے کہا کیوں نہیں! ہم اس پر گواہ ہیں۔‘‘

            تمام ارواح نے یہی جواب دیا کہ تو ہی ہمارا رب ہے‘ ہم اقرار کرتے ہیں ، ہم اس پر گواہ ہیں۔ اب یہاں نوٹ کیجیے کہ یہ اقرار تمام انسانوں پر اللہ کی طرف سے حجت ہے۔ جیسے کہ اس سے پہلے سورۃ المائدۃ کی آیت: 19 میں آ چکا ہے:  ’’اے اہل ِکتاب! تمہارے پاس آ چکا ہے ہمارا رسول جو تمہارے لیے (دین کو) واضح کر رہا ہے‘ رسولوں کے ایک وقفے کے بعد‘ مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تو آیا ہی نہیں تھا کوئی بشارت دینے والا اور نہ کوئی خبردار کرنے والا‘‘۔  تو یہ گویا اتمامِ حجت تھی اہل ِکتاب پر۔ اسی طرح سورۃ الانعام کی آیت: 156 میں فرمایا: ’’مبادا تم یہ کہو کہ کتابیں تو دی گئی تھیں ہم سے پہلے دو گروہوں کواور ہم تو ان کتابوں کو (غیر زبان ہونے کی وجہ سے) پڑھ بھی نہیں سکتے تھے‘‘۔ تو یہ اتمامِ حجت کیا گیا بنی اسماعیل پر کہ اب تمہارے لیے ہم نے اپنا ایک رسول تم ہی میں سے بھیج دیا ہے اور وہ تمہارے لیے ایک کتاب لے کر آیا ہے جو تمہاری اپنی زبان ہی میں ہے۔ لہٰذا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے اپنی کتابیں تو ہم سے پہلے والی اُمتوں پر نازل کی تھیں، اور یہ کہ اگر ہم پر بھی کوئی ایسی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے کہیں بڑھ کر ہدایت یافتہ ہوتے۔ آیت زیر ِنظر میں جس گواہی کا ذکر ہے وہ پوری نوعِ انسانی کے لیے حجت ہے۔ یہ عہد ہر روحِ نسانی اللہ سے کر کے دنیا میں آئی ہے اور اُخروی مواخذے کی اصل بنیاد یہی گواہی فراہم کرتی ہے۔ نبوت‘ وحی اور الہامی کتب کے ذریعے جو اتمامِ حجت کیا گیا‘ وہ تاکیدمزید اور تکرار کے لیے اور لوگوں کے امتحان کو مزید آسان کرنے کے لیے کیا گیا۔ لیکن حقیقت میں اگر کوئی ہدایت بذریعہ نبوت، وحی وغیرہ نہ بھی آتی تو روزِ محشر کے عظیم محاسبہ (accountability) کے لیے عالم ِارواح میں لیا جانے والا یہ عہد ہی کافی تھا جس کا احساس اور شعور ہر انسان کی فطرت میں سمو دیا گیا ہے۔

            اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ:  ’’مبادا تم یہ کہو قیامت کے دن کہ ہم تو اس سے غافل تھے۔‘‘ 

UP
X
<>