May 6, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 24

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

اے ایمان والو ! اﷲ اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب رسول تمہیں اُس بات کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اور یہ بات جان رکھو کہ اﷲ انسان اور اُس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے، اور یہ کہ تم سب کو اسی کی طرف اِکٹھا کر کے لے جایا جائے گا

آیت 24:  یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ: ’’اے اہل ایمان! لبیک کہا کرو اللہ اور رسول کی پکار پر جب وہ تمہیں پکاریں اُس شے کے لیے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔‘‘

            تم جنگ کے لیے جاتے ہوئے سمجھ رہے ہو کہ یہ موت کا گھاٹ ہے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ تو اصل اور ابدی زندگی کا دروازہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں شہداء کے بارے میں فرمایا گیا: وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَـآءٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ۔ چنانچہ اللہ اور اس کے رسول جس چیز کی طرف تمہیں بلا رہے ہیں‘ حقیقی زندگی وہی ہے۔ اس کے مقابلے میں اس دعوت سے اعراض کر کے زندگی بسر کرنا گویا حیوانوں کی سی زندگی ہے‘ جس کے بارے میں ہم سورۃ الاعراف میں پڑھ چکے ہیں: اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ.  (الاعراف: 179)۔

             وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہ: ’’اورجان رکھو کہ اللہ بندے اور اُس کے دل کے درمیان حائل ہو جایا کرتا ہے‘‘

            یعنی اگر اللہ اور اُس کے رسول کی پکار سُنی اَن سنی کر دی جائے اور اُن کے احکامات سے بے نیازی کو وطیرہ بنا لیا جائے تو اللہ تعالیٰ خود ایسے بندے اور ہدایت کے درمیان آڑ بن جاتا ہے‘ جس سے آئندہ وہ ہدایت کی ہر بات سننے اور سمجھنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ اسی مضمون کو سورۃ البقرۃ کی آیت 7 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ.  کہ ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر اللہ نے مہر کر دی ہے۔ جبکہ سورۃ الانعام کی آیت 110 میں اس اصول کو سخت ترین الفاظ میں اس طرح واضح کیا گیا ہے: وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہ اَوَّلَ مَرَّۃٍ.  یعنی حق کے پوری طرح واضح ہو کر سامنے آ جانے پر بھی جو لوگ فوری طور پر اسے مانتے نہیں اور اس سے پہلو تہی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے دل الٹ دیے جاتے ہیں اوران کی بصارت پلٹ دی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ بہت حساس اور خوف کھانے والا معاملہ ہے۔ دین کا کوئی مطالبہ کسی کے سامنے آئے‘ اللہ کا کوئی حکم اس تک پہنچ جائے اور اس کا دل اس پر گواہی بھی دے دے کہ ہاں یہ بات درست ہے‘ پھر اگر وہ اس سے اعراض کر ے گا‘ کنی کترائے گا‘ تو اس کی سزا اسے اس دنیا میں یوں بھی مل سکتی ہے کہ حق کو پہچاننے کی صلاحیت ہی اس سے سلب کر لی جاتی ہے‘ دل اور سماعت پر مہر لگ جاتی ہے‘ آنکھوں پر پردے پڑ جاتے ہیں‘ ہدایت اور اس کے درمیان آڑ کر دی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا اٹل قانون ہے۔

             وَاَنَّہ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ: ’’اور یہ کہ (بالآخر) تم سب کو یقینا اُسی کی طرف جمع کیا جانا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>