May 2, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 32

وَإِذْ قَالُواْ اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاء أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ 

 (اور ایک وقت وہ تھا) جب انہوں نے کہا تھا کہ : ’’ یا اﷲ ! اگر یہ (قرآن) ہی وہ حق ہے جو تیری طرف سے آیا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا دے، یا ہم پر کوئی اور تکلیف دہ عذاب ڈال دے۔ ‘‘

  آیت 32:  وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ: ’’اور جب انہوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ (قرآن) تیری ہی طرف سے برحق ہے تو برسا دے ہم پر پتھر آسمان سے یابھیج دے ہم پر کوئی دردناک عذاب۔‘‘

            جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ سردارانِ قریش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ مکہ کے عام لوگوں کومحمد رسول اللہ کی دعوت کے اثرات سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اس کے لیے وہ مختلف قسم کی تدبیریں کرتے رہتے تھے‘ جن کا ذکر قرآن میں بھی متعدد بار ہوا ہے۔ اس آیت میں ان کی ایسی ہی ایک تدبیر کا تذکرہ ہے۔ اُن کے بڑے بڑے سردار عوام کے اجتماعات میں علی الاعلان اس طرح کی باتیں کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن اللہ ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے اور ہم اس کا انکار کر رہے ہیں تو ہم پر اللہ کی طرف سے عذاب کیوں نہیں آ جاتا؟ بلکہ وہ اللہ کو مخاطب کر کے دعائیہ انداز میں بھی پکارتے تھے کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن تیرا ہی کلام ہے تو پھر اس کا انکار کرنے کے سبب ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا دے‘ یا کسی بھی شکل میں ہم پر اپنا عذاب نازل فرما دے۔ اور اس کے بعد وہ اپنی اس تدبیرکی خوب تشہیر کرتے کہ دیکھا ہماری اس دعا کا کچھ بھی ردِّ عمل نہیں ہوا‘ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہوتا تو ہم پر اب تک عذاب آ چکا ہوتا۔ چنانچہ اس طرح وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ 

UP
X
<>