May 2, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 33

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ 

اور (اے پیغمبر !) اﷲ ایسا نہیں ہے کہ اِن کو اِس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو، اور اﷲ اِس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں

 آیت 33:  وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ: ’’ اور اللہ ایسا نہ تھا کہ اُن کو عذاب دیتا جبکہ (ابھی) آپ اُن کے درمیان موجود تھے۔‘‘

             اگرچہ وہ لوگ عذاب کے پوری طرح مستحق ہو چکے تھے، لیکن جس طرح کے عذاب کے لیے وہ لوگ دعائیں کر رہے تھے ویسا عذاب سنت ِالٰہی کے مطابق اُن پر اُس وقت تک نہیں آ سکتا تھا جب تک اللہ کے رسول مکہ میں ان کے درمیان موجود تھے‘ کیونکہ ایسے عذاب کے نزول سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اہل ایمان کو ہجرت کاحکم دے دیتا ہے اور ان کے نکل جانے کے بعد ہی کسی آبادی پر اجتماعی عذاب آیا کرتا ہے۔

             وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ: ’’اور اللہ ان کو عذاب دینے والا نہیں تھا جب کہ وہ استغفار بھی کر رہے تھے۔‘‘

            اس لحاظ سے مکہ کی آبادی کا معاملہ بہت گڈ مڈ تھا۔ مکہ میں عوام الناس بھی تھے‘ سادہ لوح لوگ بھی تھے جو اپنے طور پر اللہ کا ذکر کرتے تھے، تلبیہ پڑھتے تھے اور اللہ سے استغفار بھی کرتے تھے۔ دوسری طرف اللہ کا قانون ہے جس کا ذکر اسی سورت کی آیت 37 میں ہوا ہے کہ جب تک وہ پاک اور ناپاک کو چھانٹ کر الگ نہیں کر دیتا «لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ» اس وقت تک اس نوعیت کا عذاب کسی قوم پر نہیں آتا۔ 

UP
X
<>