May 2, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 39

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

اور (مسلمانو !) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اوردین پورے کا پورا اﷲ کا ہوجائے۔ پھر اگر یہ باز آجائیں تو اُن کے اعمال کو اﷲ خوب دیکھ رہا ہے

    آیت 39: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہ لِلّٰہِ: ’’اور (اے مسلمانو!) ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘

            یہی حکم سورۃ البقرۃ کی آیت: 193 میں بھی آ چکا ہے۔ البتہ یہاں اس کے الفاظ میں ’’کُلُّہ‘‘ کی اضافی شان اور مزید تاکید پائی جاتی ہے۔ یعنی اے مسلمانو! تمہاری تحریک کو شروع ہوئے پندرہ برس ہو گئے۔ اس دوران میں دعوت‘ تنظیم‘ تربیت اور صبر محض کے مراحل کامیابی سے طے ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اب passive resistance کا دور ختم سمجھو۔ نبی اکرم کی طرف سے اقدام (active resistance) کا آغاز ہو چکا ہے اور اس اقدام کے نتیجے میں اب یہ تحریک مسلح تصادم (armed conflict) کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ لہٰذا جب ایک دفعہ تلواریں تلواروں سے ٹکرا چکی ہیں تو تمہاری یہ تلواریں اب واپس نیاموں میں اُس وقت تک نہیں جائیں گی جب تک یہ کام مکمل نہ ہو جائے اور اس کام کی تکمیل کا تقاضا یہ ہے کہ فتنہ بالکل ختم ہو جائے۔ ’’فتنہ‘‘ کسی معاشرے کے اندر باطل کے غلبے کی کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس معاشرے کے لوگوں کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ جنگ اب اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل مکمل طور پر مغلوب اور اللہ کا دین پوری طرح سے غالب نہ ہو جائے۔ اللہ کے دین کا یہ غلبہ جزوی طور پر بھی قابل قبول نہیں بلکہ دین کل کا کل اللہ کے تابع ہونا چاہیے۔

             فَاِنِ انْتَہَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ: ’’پھر اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ یقینا اس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘

UP
X
<>