April 26, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 5

كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ

 (مالِ غنیمت کی تقسیم کا) یہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے تمہارے رَبّ نے تمہیں اپنے گھر سے حق کی خاطر نکالا، جبکہ مسلمانوں کے ایک گروہ کو یہ بات ناپسند تھی

            یہاں سے اب غزوه بدر کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔

آیت ۵:   کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَاِنَّ فَرِیْقًًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَـکٰرِہُوْنَ:  ’’جیسے کہ نکالا آپ کو (اے نبی) آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ‘ اور یقینا اہل ایمان میں سے کچھ لوگ اسے پسند نہیں کر رہے تھے۔‘‘

            یہ اُس پہلی مشاورت کا ذکر ہے جو رسول اللہ نے صحابہ سے مدینہ ہی میں فرمائی تھی۔ لشکر کے میدانِ بدر کی طرف روانگی کو ناپسند کرنے والے دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک تو منافقین تھے جو کسی قسم کی آزمائش میں پڑنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اپنے منصوبے کے تحت اس طرح کی کسی مہم جوئی کی روایت کو’’Nip the evil in the bud‘‘ کے مصداق ابتدا ہی میں ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے دلائل بظاہر بڑے بھلے تھے کہ لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں ہے‘ ہمیں تو اچھی باتوں اور اچھے اخلاق سے دین کی تبلیغ کرنی چاہیے‘ اور لڑنے بھڑنے سے بچنا چاہیے‘ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف کچھ نیک سرشت سچے مؤمن بھی ایسے تھے جو اپنے خاص مزاج اور سادہ لوحی کے سبب یہ رائے رکھتے تھے کہ ابھی تک قریش کی طرف سے تو کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں ہوا‘ لہٰذا ہمیں آگے بڑھ کر پہل نہیں کرنی چاہیے۔ زیر نظر آیت میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ حضور کا بدر کی طرف روانہ ہونا اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ایک حصہ تھا۔ 

UP
X
<>