May 5, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 65

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ 

اے نبی ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگرتمہارے بیس آدمی ایسے ہوں جو ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دوسو پر غالب آ جائیں گے۔اور اگر تمہارے سو آدمی ہوں گے تو وہ کافروں کے ایک ہزار پر غالب آجائیں گے، کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے

  آیت 65:  یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ: ’’اے نبی ترغیب دلائیے اہل ایمان کو قتال کی۔‘‘

            ہجرت کے بعد 9 سال تک قتال کے لیے ترغیب‘ تشویق اور تحریص کے ذریعے ہی زور دیا گیا۔ یہ تحریص گاڑھی ہو کر ’’تحریض‘‘ بن گئی۔ اس دور میں مجاہدین کی فضیلت بیان کی گئی‘ اِن سے بلند درجات کا وعدہ کیا گیا (النساء: 95) مگر قتال کو ہر ایک کے لیے فرضِ عین قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن 9 ہجری میں غزوۂ تبوک کے موقع پر جہاد کے لیے نکلنا تمام اہل ایمان پر فرض کر دیا گیا۔ اس وقت تمام اہل ایمان کے لیے نفیر عام تھی اور کسی کو بلا عذر پیچھے رہنے کی اجازت نہیں تھی۔

             اِنْ یَّـکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ: ’’اگر تم میں سے بیس افراد ہوں گے صبرکرنے والے (ثابت قدم) تو وہ دوسو افراد پر غالب آ جائیں گے‘‘

             وَاِنْ یَّــکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا: ’’اور اگر ہوں گے تم میں سے سو افراد تو وہ غالب آ جائیں گے کفار کے ایک ہزار افراد پر‘‘

             بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ: ’’یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘

            یہاں سمجھ نہ رکھنے سے مراد یہ ہے کہ انہیں اپنے موقف کی سچائی کا یقین نہیں ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جسے اپنے نظریے اور موقف کی حقانیت پر پختہ یقین ہے‘ اس کا ایمان ہے کہ وہ حق پر ہے اور حق کے لیے لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو نظریاتی طور پر ڈانواں ڈول ہے‘ کسی کا تنخواہ یافتہ ہے یاکسی کے حکم پر مجبور ہو کر لڑ رہا ہے۔ اب ان دونوں اشخاص کی کارکردگی میں زمین و آسمان کا فرق ہو گا۔ چنانچہ کفار کو جنگ میں ثابت قدمی اور استقلال کی وہ کیفیت حاصل ہو ہی نہیں سکتی جو نظریے کی سچائی پر جان قربان کرنے کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے۔ دونوں اطراف کے افراد کی نظریاتی کیفیت کے اسی فرق کی بنیاد پر کفار کے ایک سو افراد پر دس مسلمانوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس کے بعد والی آیت اگرچہ زمانی لحاظ سے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی مگر مضمون کے تسلسل کے باعث یہاں شامل کر دی گئی ہے۔ 

UP
X
<>