May 4, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 66

الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُواْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ 

لو اَب اﷲ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا، اور اُس کے علم میں ہے کہ تمہارے اندر کچھ کمزوری ہے۔ لہٰذا (اب حکم یہ ہے کہ) اگر تمہارے ثابت قدم رہنے والے سو آدمی ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے، اور اگر تمہارے ایک ہزار آدمی ہوں تو وہ اﷲ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آجائیں گے، اور اﷲ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے

  آیت 66:  اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا: ’’اب اللہ نے تم پر سے تخفیف کر دی ہے اور اللہ کے علم میں ہے کہ تمہارے اندر کچھ کمزوری آ گئی ہے۔‘‘

            یہ کس کمزوری کا ذکر ہے اور یہ کمزوری کیسے آئی؟ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جہاں تک مہاجرین اور انصار میں سے ان صحابہ کرام کا تعلق ہے جو سابقون الاوّلُون میں سے تھے تو ان کے اندر (معاذ اللہ) کسی قسم کی بھی کوئی کمزوری نہیں تھی‘ لیکن جو لوگ نئے مسلمان ہو رہے تھے ان کی تربیت ابھی اس انداز میں نہیں ہو پائی تھی جیسے پرانے لوگوں کی ہوئی تھی۔ ان کے دلوں میں ابھی ایمان پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا اور مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں ایسے نئے لوگوں کا تناسب روز بروز بڑھ رہا تھا۔ مثلاً اگر پہلے ہزار لوگوں میں پچاس یانج سو نئے لوگ ہوں تو اب ان کی تعداد خاصی زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔ لہٰذا اوسط کے اعتبار سے مسلمانوں کی صفوں میں پہلے کی نسبت اب کمزوری آ گئی تھی۔

             فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ: ’’پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے‘‘

             وَاِنْ یَّـکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ: ’’اور اگرتم میں ایک ہزار ہوں گے تووہ دو ہزار پر غالب آ جائیں گے اللہ کے حکم سے۔‘‘

             وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: ’’اور یقینا اللہ صبر کرنے والوں (ثابت قدم رہنے والوں) کے ساتھ ہے۔‘‘ 

UP
X
<>