May 5, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 67

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 

یہ بات کسی نبی کے شایانِ شان نہیں ہے کہ اُس کے پاس قیدی رہیں ، جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا) خون اچھی طرح نہ بہا چکا ہو (جس سے ان کا رُعب پوری طرح ٹوٹ جائے) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو، اور اﷲ (تمہارے لئے) آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے، اور اﷲ صاحبِ اقتدار بھی ہے، صاحبِ حکمت بھی

  آیت 67:  مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّـکُوْنَ لَہ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ: ’’کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی ہوں جب تک کہ وہ (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں خوب خونریزی نہ کر دے۔‘‘

            یہ آیت غزوه بدر میں پکڑے جانے والے قیدیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ غزوه بدر میں قریش کے ستر لوگ قیدی بنے۔ ان کے بارے میں رسول اللہ نے صحابہ سے مشاورت کی۔ حضرت ابو بکر کی رائے تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ نرمی کی جائے اور فدیہ وغیرہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ خود حضور چونکہ رؤف ورحیم اور رقیق القلب تھے اس لیے آپ کی بھی یہی رائے تھی۔ مگر حضرت عمر اس اعتبار سے بہت سخت گیر تھے (اَشَدُّھُمْ فِی اَمْرِ اللّٰہِ عُمَرُ)۔ آپ کی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ آزاد ہو کر پھر کفر کے لیے تقویت کا باعث بنیں گے‘ اس لیے جب تک کفر کی کمر پوری طرح ٹوٹ نہیں جاتی ان کے ساتھ نرمی نہ کی جائے۔ آپ کا اصرار تھا کہ تمام قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، بلکہ مہاجرین اپنے قریب ترین عزیزوں کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ بعد میں ان قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کا فیصلہ ہوا اور اس پر عمل درآمد بھی ہو گیا۔ اس فیصلے پر اس آیت کے ذریعے گرفت ہوئی کہ جب تک باطل کی کمر پوری طرح سے توڑ نہ دی جائے اُس وقت تک حملہ آور کفار کو جنگی قیدی بنانا درست نہیں۔ انہیں قیدی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندہ رہیں گے‘ اور آج نہیں تو کل انہیں چھوڑنا ہی پڑے گا۔ لہٰذا وہ پھر سے باطل کی طاقت کا سبب بنیں گے اور پھر سے تمہارے خلاف لڑیں گے۔

             تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا: ’’تم دنیا کا سازو سامان چاہتے ہو‘‘

            یہ فدیے کی طرف اشارہ ہے۔ اب نہ تو رسول اللہ کی یہ نیت ہو سکتی تھی (معاذ اللہ) اور نہ ہی حضرت ابو بکر کی‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ ایسا ہے کہ اُس کے ہاں جب اپنے مقرب بندوں کی گرفت ہوتی ہے تو الفاظ بظاہر بہت سخت استعمال کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان الفاظ میں بھی ایک طرح کی سختی موجود ہے‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات نہ حضور کے لیے ہے اور نہ حضرت ابو بکر کے لیے۔

             وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ: ’’اور اللہ کے پیش نظر آخرت ہے۔ اور اللہ زبردست‘ حکمت والا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>