May 4, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 68

لَّوْلاَ كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ 

اگر اﷲ کی طرف سے ایک لکھا ہوا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا تو جو راستہ تم نے اختیار کیا، اُس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑی سزا آجاتی

  آیت 68:  لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَـآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ: ’’اگر اللہ کی طرف سے بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو جو کچھ (فدیہ وغیرہ) تم نے لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا سخت عذاب آتا۔‘‘

            اس سے مراد سوره محمد کا وہ حکم ہے (آیت: 4) جو بہت پہلے نازل ہو چکا تھا۔ اس کی تفصیل ہم ان شا ء اللہ سوره محمد کے مطالعے کے دوران پڑھیں گے کہ رسول اللہ نے اس حکم کی تعبیر (interpretation) میں کس طرح فدیہ لینے کی گنجائش نکالی تھی۔ یہ دراصل قانون کی تشریح و تعبیر کا معاملہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ الزمر کی آیت: 18 میں ارشاد ہے: الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ. یعنی وہ لوگ جو کسی بات کو سن کر پیروی کرتے ہیں اُس میں سے بہترین کی اور اس کے اعلیٰ ترین درجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس قانون کی تعبیر میں بھی ایسے ہی ہوا۔ چونکہ مذکورہ حکم کے اندر یہ گنجائش یا رعایت موجود تھی اس لیے حضور نے اپنی طبیعت کی نرمی کے سبب اس کو اختیار فرما لیا۔   آیت زیر نظر کے اندر سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ سوره محمد میں نازل شدہ حکم میں رعایت کی یہ گنجائش موجود تھی، اسی لیے تو اس حکم کا حوالہ دے کر فرمایا گیا کہ اگر وہ حکم پہلے نازل نہ ہو چکا ہوتا تو جو بھی تم نے فدیہ وغیرہ لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا عذاب آتا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور اور حضرت ابو بکر اس آیت کے نزول کے بعد روتے رہے ہیں۔ بہر حال اس فیصلے میں کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہیں تھی اور جو بھی رائے اختیار کی گئی تھی وہ اجتہادی تھی اور آپ نے اجتہاد کے ذریعے اس حکم میں سے نرمی اور رعایت کا ایک پہلو اختیار کر لیا تھا۔ 

UP
X
<>