May 4, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 70

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الأَسْرَى إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

اے نبی ! تم لوگوں کے ہاتھوں میں جو قیدی ہیں ، (اور جنہوں نے مسلمان ہونے کا ارادہ ظاہر کیا ہے) اُن سے کہہ دو کہ : ’’ اگر اﷲ تمہارے دلوں میں بھلائی دیکھے گا تو جو مال تم سے (فدیہ میں ) لیا گیا ہے، اُس سے بہتر تمہیں دیدے گا، اور تمہاری بخشش کردے گا، اور اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ‘‘

 آیت 70:  یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی: ’’اے نبی کہہ دیجیے اُن لوگوں سے جو آپ کے قبضے میں قیدی ہیں‘‘

            اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے پس منظر کے طور پر غزوۂ بدر کے قیدیوں کے بارے میں دو باتیں ذہن میں رکھیے۔ ایک تو ان قیدیوں میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو اپنی مرضی سے جنگ لڑنے نہیں آئے تھے۔ وہ اپنے سرداروں کے دباؤ یا بعض دوسری مصلحتوں کے تحت بادلِ نخواستہ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ دوسری اہم بات اُن کے بارے میں یہ تھی کہ ان میں سے بہت سے لوگ بعض مسلمانوں کے بہت قریبی رشتہ دار تھے۔ خود نبی اکرم کے حقیقی چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب بھی ان قیدیوں میں شامل تھے۔ ان کے بارے میں گمانِ غالب یہی ہے کہ وہ ایمان تو لا چکے تھے مگر اس وقت تک انہوں نے اپنے ایمان کا اعلان نہیں کیا تھا۔ روایات میں ہے کہ حضرت عباس جن رسیوں میں بندھے ہوئے تھے اُن کے بند بہت سخت تھے۔ وہ تکلیف کے باعث بار بار کراہتے تو حضور اُن کی آواز سن کر بے چین ہو جاتے تھے‘ مگر قانون تو قانون ہے‘ لہٰذا آپ نے اُن کے لیے کسی رعایت کی خواہش کا اظہار نہیں فرمایا۔ مگر جب اُن کی تکلیف طبیعت پر زیادہ گراں گزری تو آپ نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کے بند ڈھیلے کر دیے جائیں۔ اسی طرح آپ کے داماد ابو العاص بھی قید ہو کر آئے تھے اور جب آپ کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب نے اپنے شوہر کو چھڑانے کے لیے اپنا ہار فدیے کے طور پر بھیجا‘ جو اُن کو حضرت خدیجہ نے ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا تو حضور کے لیے بڑی رقت آمیز صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ آپ نے جب وہ ہار دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت خدیجہ کے ساتھ گزاری ہوئی ساری زندگی‘ آپ کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کی یاد مجسم ہو کر نگاہوں کے سامنے آ گئی۔ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اگر اجازت دیں تو یہ ہار واپس کر دیا جائے تا کہ ماں کی نشانی بیٹی کے پاس ہی رہے۔ چنانچہ سب کی اجازت سے وہ ہار واپس بھجوا دیا گیا۔ یوں قیدیوں کے ساتھ اکثر مہاجرین کے خونی رشتے تھے‘ اس لیے کہ یہ سب لوگ ایک ہی خاندان اور ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

            یہاں نبی اکرم سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ آپ کے قبضے میں جو قیدی ہیں آپ ان سے کہہ دیجیے:

             اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ: ’’اگراللہ تمہارے دلوں میں کوئی بھلائی پائے گا تو جو کچھ تم سے لے لیا گیا ہے وہ اس سے بہتر تمہیں دے دے گا‘‘

            یعنی تمہاری نیتوں کا معاملہ تمہارے اور اللہ کے مابین ہے‘ جبکہ برتاؤ تمہارے ساتھ خالصتاً قانون کے مطابق ہو گا۔ تم سب لوگ جنگ میں کفار کا ساتھ دینے کے لیے آئے تھے اور اب قانوناً جنگی قیدی ہو۔ جنگ میں کوئی اپنی خوشی سے آیا تھا یا مجبوراً‘ کوئی دل میں ایمان لے کر آیا تھا یا کفر کی حالت میں آیا تھا‘ ان سب باتوں کی حقیقت کو اللہ خوب جانتا ہے اور وہ دلوں کی نیتوں کے مطابق ہی تم سب کے ساتھ معاملہ کرے گا اور جس کے دل میں خیر اور بھلائی پائے گا اس کو کہیں بہتر انداز میں وہ اس بھلائی کا صلہ دے گا۔

             وَیَغْفِرْ لَـکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: ’’اور تمہیں بخش دے گا‘ اور اللہ بخشنے والا‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>