May 8, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ 

اور تمہارے اِردگرد جو دیہاتی ہیں ، ان میں بھی منافق لوگ موجود ہیں ، اور مدینہ کے باشندوں میں بھی۔ یہ لوگ منافقت میں (اتنے) ماہر ہو گئے ہیں (کہ) تم اُنہیں نہیں جانتے، اُنہیں ہم جانتے ہیں ۔ اِن کو ہم دو مرتبہ سزا دیں گے، پھر اُن کو ایک زبردست عذاب کی طرف دھکیل دیاجائے گا

 آیت ۱۰۱: وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ: ‘‘اور جو تمہارے آس پاس کے بادیہ نشین ہیں ان میں منافق بھی ہیں۔‘‘

            اعلیٰ ترین مراتب والے اصحاب کے ذکر کے بعد اب بالکل نچلی سطح کے لوگوں کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

            وَمِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ: ‘‘اور اہل مدینہ میں بھی‘ جو نفاق پر اڑ چکے ہیں‘‘

            یہ وہ لوگ ہیں جن کے نفاق کا مرض اب آخری مرحلے میں پہنچ کر لا علاج ہو چکا ہے اور اب اس مرض سے ان کے شفایاب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ منافقت کے مرض کی بھی ٹی بی کی طرح تین stages ہوتی ہیں۔ جھوٹے بہانے بنانا اس مرض کی ابتدا ہے‘ جبکہ بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانا دوسری سٹیج کی علامت ہے‘ اور جب یہ مرض تیسری اور آخری سٹیج میں پہنچتا ہے تو اس کی واضح علامت منافقین کی اہل ایمان کے ساتھ ضد اور دشمنی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اہل ایمان تو دین کے تمام مطالبات خوشی خوشی پورے کرتے ہیں‘ جس مہم سے بچنے کے لیے منافقین بہانے تراشنے میں مصروف ہوتے ہیں اہل ایمان بلا حیل و حجت اس کے لیے دل و جان سے حاضر ہو جاتے ہیں۔ مؤمنین صادقین کا یہ رویہ منافقین کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا‘ جس کے باعث آئے دن ان کی سبکی ہوتی ہے اور آئے دن ان کی منافقت کا پول کھلتا رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین کو مسلمانوں سے نفرت اور عداوت ہو جاتی ہے اور یہی اس مرض کی آخری سٹیج ہے۔

            لاَ تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ: ‘‘آپ انہیں نہیں جانتے‘ ہم انہیں جانتے ہیں۔ ہم انہیں دوہرا عذا ب دیں گے‘‘

            منافقین مدینہ تو ہر روز نئے عذاب سے گزرتے تھے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کا مطالبہ ہوتا تھا اور ہر روز انہیں جھوٹی قسمیں کھا کھا کر‘ جھوٹے بہانے بنا بنا کر جان چھڑانا پڑتی تھی۔ اس لحاظ سے ان کی زندگی مسلسل عذاب میں تھی۔

            ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ: ‘‘پھر وہ لوٹا دیے جائیں گے ایک بہت بڑے عذاب کی طرف۔‘‘

            دنیا کا عذاب جتنا بھی ہو آخرت کے عذاب کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا دنیا کے عذاب جھیلتے جھیلتے ایک دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا کرنے کے لیے پیش ہونا پڑے گا۔

             السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ ان کے متبعین اور پھر منافقین کے ذکر کے بعد اب کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں۔ ان لوگوں کا ذکر بھی دو الگ الگ درجوں میں ہوا ہے۔ ان میں پہلے جس گروہ کا ذکر آ رہا ہے وہ اگرچہ مخلص مسلمان تھے مگر اِن میں ہمت کی کمی تھی۔ چلنا بھی چاہتے تھے مگر چل نہیں پاتے تھے۔ کسی قدر چلتے بھی تھے مگر کبھی کوتاہی بھی ہو جاتی تھی۔ ہمت کر کے آگے بڑھتے تھے لیکن کبھی کسل مندی اور سستی کا غلبہ بھی ہو جاتا تھا۔ 

UP
X
<>