May 8, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 102

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ انہوں نے ملے جلے عمل کئے ہیں ، کچھ نیک کام، اور کچھ بُرے۔ اُمید ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول کر لے گا۔ یقینا اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

 آیت ۱۰۲: وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ: ‘‘اور کچھ دوسرے لوگ ہیں جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں‘‘

            وہ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹ نہیں بولتے‘ جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے‘ جھوٹے بہانے نہیں بناتے‘ بلکہ کھلے عام اعتراف کر لیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی‘ معمولاتِ زندگی کی مصروفیات اور اہل و عیال کی مشغولیات نے ہمیں اس قدر اُلجھایا کہ ہم دینی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ جب غلطی کا ایسا کھلا اعتراف ہو گیا تو نفاق کا احتمال جاتا رہا۔ لہٰذا انہیں توبہ کی توفیق مل گئی۔

            خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا: ‘‘انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔‘‘

            نیک اعمال بھی کرتے ہیں مگر کبھی کوئی غلطی بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ایثار وانفاق بھی کرتے ہیں مگر دنیاداری کے جھمیلوں میں الجھ کر کہیں کوئی تقصیر بھی ہو جاتی ہے۔

            عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: ‘‘امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔ یقینا اللہ بخشنے والا‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘

            ایک روایت کے مطابق یہ  آیت حضرت ابو لبابہ اور ان کے چند ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان لوگوں سے سستی اور دنیاداری کی مصروفیات کے باعث یہ کوتاہی ہوئی کہ وہ غزوه تبوک پر نہ جا سکے‘ مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے شدید احساسِ ندامت کے باعث رسول اللہ کے واپس مدینہ تشریف لانے سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ اب یا تو حضور تشریف لا کر ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمائیں گے اور ہمیں اپنے دست ِمبارک سے کھولیں گے یا پھر ہم یہیں بندھے بندھے اپنی جانیں دے دیں گے۔ حضور کی واپسی پر یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے تشریف لے جا کر انہیں کھولا اور خوشخبری سنائی کہ ان کی توبہ قبول ہو گئی ہے۔ توبہ کرنے اور توبہ کی قبولیت کا یہ وہی اصول تھا جو ہم سورۃ النساء میں پڑھ آئے ہیں: اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً.  یعنی کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہونے کے فوراً بعد انسان کے اندر ایمانی جذبات لوٹ آئیں‘ اسے احساسِ ندامت ہواور وہ توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ نے ایسی توبہ کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ مگر اِن اصحاب کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں خصوصی حکم نازل ہوا۔ 

UP
X
<>