May 4, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 120

مَا كَانَ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُواْ عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلاَ يَرْغَبُواْ بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لاَ يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلاَ نَصَبٌ وَلاَ مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ يَطَؤُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلاَ يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلاً إِلاَّ كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

مدینہ کے باشندوں اور ان کے اردگرد کے دیہات میں رہنے والوں کیلئے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ اﷲ کے رسول (کا ساتھ دینے سے) پیچھے رہیں ، اور نہ یہ جائز تھا کہ وہ بس اپنی جان پیاری سمجھ کر اُن کی (یعنی رسول اﷲ ! ﷺ کی) جان سے بے فکر ہو بیٹھیں ۔ یہ اس لئے کہ ان (مجاہدین) کو جب کبھی اﷲ کے راستے میں پیاس لگتی ہے، یا تھکن ہو تی ہے، یا بھوک ستاتی ہے، یا وہ کوئی ایسا قدم اُٹھاتے ہیں جو کافروں کو گھٹن میں ڈالے، یا دُشمن کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو اُن کے اعمال نامے میں (ہر ایسے کام کے وقت) ایک نیک عمل ضرور لکھا جاتا ہے۔ یقین جانو کہ اﷲ نیک لوگوں کے کسی عمل کو بیکارجانے نہیں دیتا

 آیت ۱۲۰: مَا کَانَ لِاَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَہُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِہِمْ عَنْ نَّفْسِہ: ‘‘اہل مدینہ اور ان کے اردگرد کے بدو لوگوں کے لیے روا نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہتے اور نہ یہ کہ اپنی جانوں کو آپ کی جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے۔‘‘

            غزوۂ تبوک کے لیے نکلتے ہوئے مدینہ کے ماحول میں ‘‘تپتی راہیں مجھ کو پکاریں‘ دامن پکڑے چھاؤں گھنیری‘‘ والا معاملہ تھا۔ لہٰذا جب اللہ کے رسول ان تپتی راہوں کی طرف کوچ فرما رہے تھے تو کسی ایمان کے دعویدار کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر پیچھے رہ جائے‘ آپ کی جان سے بڑھ کر اپنی جان کی عافیت کی فکر کرے اور آپ کے سفر کی صعوبتوں پر اپنی آسائشوں کو ترجیح دے۔

            ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ لاَ یُصِیْبُہُمْ ظَمَاٌ وَّلاَ نَصَبٌ وَّلاَ مَخْمَصَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَطَؤنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلاَ یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلاً اِلاَّ کُتِبَ لَہُمْ بِہ عَمَلٌ صَالِحٌ: ‘‘یہ اس لیے کہ انہیں پیاس‘ مشقت اور فاقے کی (صورت میں ) جو بھی تکلیف پہنچتی ہے اللہ کی راہ میں‘ اور جہاں کہیں بھی وہ قدم رکھتے ہیں کفار (کے دلوں ) کو جلاتے ہوئے اور دشمن کے مقابلے میں کوئی بھی کامیابی حاصل کرتے ہیں‘ تو اُن کے لیے اس (سب کچھ) کے عوض نیکیوں کا اندارج ہوتا رہتا ہے۔‘‘

            اہل ایمان جب اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں تو ان کی ہر مشقت اور ہر تکلیف کے عوض اللہ تعالیٰ ان کے نیکیوں کے ذخیرہ میں مسلسل اضافہ فرماتے رہتے ہیں۔

            اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ: ‘‘یقینا اللہ نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘

UP
X
<>