April 26, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 38

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اﷲ کے راستے میں (جہاد کیلئے) کوچ کرو تو تم بوجھل ہو کر زمین سے لگ گئے؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی پر راضی ہوچکے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو (یاد رکھو کہ) دنیوی زندگی کا مزہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ، مگر بہت تھوڑا

 آیت 38: یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَـکُمْ اِذَا قِیْلَ لَـکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ: ‘‘اے ایمان کے دعوے دارو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں تو تم دھنسے جاتے ہو زمین کی طرف۔‘‘

            اگرچہ یہ وضاحت سورۃ النساء میں بھی ہو چکی ہے مگر اس نکتے کو دوبارہ ذہن نشین کرلیں کہ قرآن حکیم میں منافقین سے خطاب ‘‘یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کے صیغے میں ہی ہوتا ہے‘ کیونکہ ایمان کا دعویٰ تووہ بھی کرتے تھے اور قانونی اور ظاہری طور پر وہ بھی مسلمان تھے۔

            اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ: ‘‘(سوچو!) کیا تم نے آخرت کی بجائے دُنیا کی زندگی کو قبول کر لیا ہے؟‘‘

            یہ بھی ایک متجسسانہ سوال (searching question) ہے۔ یعنی تم دعویدار تو ہو ایمان بالآخرت کے‘ لیکن اگر تم اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنے کو تیار نہیں ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم آخرت ہاتھ سے دے کر دنیا کے خریدار بننے جا رہے ہو۔ تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔

            فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ قَلِیْلٌ: ‘‘تو (جان لو کہ ) دنیا کی زندگی کا سازو سامان آخرت کے مقابلے میں بہت قلیل ہے۔‘‘

UP
X
<>