April 26, 2024

قرآن کریم > اللـيـل >sorah 92 ayat 5

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى

اب جس کسی نے (اﷲ کے راستے میں مال) دیا، اور تقویٰ اختیار کیا

آيت 5: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى: «تو جس نے عطا كيا اور تقوى اختيار كيا۔»

          ظاهر هے يه خير كا راسته هے اور اس راستے كا پهلا وصف يا پهلا سنگ ميل «اعطاء» يا انفاق فى سبيل الله هے۔ سورة البلد ميں اس عمل كو انسان كے ليے ايك بهت مشكل گھاٹى قرار دے كر اس كى وضاحت يوں فرمائى گئى: (فَكُّ رَقَبَةٍ    أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ    يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ    أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ    ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ) «كسى گردن كا چھڑادينا۔ يا پھر كھانا كھلادينا بھوك كے دن، اس يتيم كو كه جو قرابت دار بھى هے يا اس محتاج كو جو مٹى ميں رل رها هے۔ پھر وه شامل هوا ان لوگوں ميں جو ايمان لائے۔۔۔۔»

          يعنى جو انسان اس «مشكل گھاٹى» كو عبور كرنے كے بعد اهل ايمان كى صف ميں شامل هوگا وه ان شاء الله ابو بكر صديق، عمر فاروق، عثمان غنى اور على مرتضى رضى الله عنهم كا پيروكار بنے گا۔ ليكن جس نے يه امتحان پاس كيے بغير هى كلمه پڑھ ليا تو اس كےبارے ميں خدشه هے كه توحيد و رسالت كى گواهى دينے كے بعد بھى اس كے ايمان كى بوباس عبدالله بن اُبى كے ايمان كى سى هوگى۔ ظاهر هے جو كلمه حضرت ابو بكر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت على رضى الله عنهم نے پڑھا تھا وهى كلمه عبد الله بن اُبى نے بھى پڑھا تھا۔ يعنى ايمان كا بيج تو دونوں طرف ايك سا تھا، مگر يه زمين اور تھى وه زمين اور تھى۔ اس زمين ميں انفاق فى سبيل الله كا هل چل چكا تھا۔ اور اس زمين ميں حب دنيا اور شكوك و تردد كے جھاڑ جھنكار نے قبضه جما ركھا تھا۔ يهى وجه تھى كه عبد الله بن اُبى كے دل كى زمين ميں ايمان كے بيج كا جماؤ ممكن هى نه هوا۔ اس حوالے سے اگر سوره آل عمران كى آيت 92 كے اس جملے كو مد نظر ركھا جائے تو انفاق واعطاء كے اس فلسفے كو سمجھنا بهت آسان هوجاتا هے: (لَنْ تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ) يعنى جب تك تم لوگ اپنى عزيز ترين چيز كو الله كى راه ميں دے ڈالو تم نيكى كى گرد كو بھى نهيں پهنچ سكتے۔ الله تعالى كى رضا چاهيے تو مال كى قربانى دو اور قربانى بھى بهترين چيز كى۔ يه نهيں كه چھانٹ كر بے كار چيزيں كسى كو دے كر سمجھو كه تم نے حاتم طائى كى قبر پر لات ماردى هے۔

          اس راستے كا دوسرا وصف يا سنگ ميل تقوى (وَاتَّقَى) هے۔ يعنى انسان كا الله تعالى كى نافرمانى سے ڈرتے رهنا۔ هر لمحه برائى كى خاردار جھاڑيوں سے اپنا دامن بچانے كى جكر ميں رهنا اور مسلسل كوشش كرتے رهنا كه ميں كسى كا دل نه دكھاؤں اور كسى كا حق نه ماروں۔ ليكن يه تبھى ممكن هے جب انسان كے اندر الله تعالى كى وديعت كرده وه اخلاقى حس زنده و بيدار هو جس كا ذكر سورة الشمس كى آيت (فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا) ميں آيا هے۔ اگر اس كى اخلاقى حس كى شمع هوا و هوس كے طوفان كى نذر هوچكى هو تو پھر ظاهر هے كهاں كا تقوى اور كس كا ڈر!

UP
X
<>