May 19, 2024

قرآن کریم > هود >surah 11 ayat 118

وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ 

اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طریقے کا پیرو بنا دیتا، (مگر کسی کو زبردستی کسی دین پر مجبور کرنا حکمت کا تقا ضا نہیں ہے، اس لئے انہیں اپنے اختیار سے مختلف طریقے اپنانے کا موقع دیا گیا ہے) اور وہ اب ہمیشہ مختلف راستوں پر ہی رہیں گے

 آیت ۱۱۸:  وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلاَ یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ:  «اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام نوع ِانسانی کو ایک ہی اُمت بنا دیتا، لیکن وہ تواختلاف کرتے ہی رہیں گے۔ »

            جہاں کہیں بھی لوگ اکٹھے مل جل کر رہ رہے ہوں گے ان میں اختلافِ رائے کا ہونا بالکل فطری بات ہے۔  مختلف لوگوں کی مختلف سوچ ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے اور اس کے لیے اپنا اپنا استدلال ہے۔ اسی کے مطابق ان کے نظریات ہیں اور اسی کے مطابق ان کے اعمال و افعال۔  جب تک یہ استدلال علم اور قرآن وسنت کی بنیاد پر ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ یہ اختلاف کی حد تک رہے اور تفرقہ کی صورت اختیار نہ کرے اور «من دیگر م تو دیگری» والا معاملہ نہ ہو۔  

            اس نکتہ کو یوں بھی سمجھنا چاہیے کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما دونوں نے قرآن و سنت سے استدلال کیا ہے، مگر بعض اوقات دونوں بزرگوں کی آراء میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔  مگر ایسے اہل علم حضرات کے ہاں ایسا اختلاف کبھی بھی نزاع اور تفرقہ بازی کا باعث نہیں بنتا۔  ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو دنیا کی رونق اور خوبصورتی بھی اسی تنوع اور اختلاف سے قائم ہے۔

گلہائے  رنگا  رنگ  سے ہے  رونق چمن

اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے!

            اگر دنیا میں یکسانیت (monotany) ہی ہو تو انسان کی طبیعت اس سے اکتا جائے۔ 

UP
X
<>