May 5, 2024

قرآن کریم > هود >surah 11 ayat 40

حَتَّى إِذَا جَاء أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلاَّ مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِيلٌ 

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا، اور تنور اُبل پڑا، توہم نے (نوح سے) کہا کہ : ’’ اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو کے جوڑے سوار کر لو، اور تمہارے گھروالوں میں سے جن کے بارے میں پہلے کہا جا چکا ہے (کہ وہ کفر کی وجہ سے غرق ہوں گے) اُن کو چھوڑ کر باقی گھر والوں کو بھی، اور جتنے لوگ ایمان لائے ہیں اُن کو بھی (ساتھ لے لو) ۔ ‘‘ اور تھوڑے ہی سے لوگ تھے جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے !

 آیت ۴۰:  حَتّٰیٓ اِذَاجَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّــنُّوْرُ:  «یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور تنور جوش سے اُبل پڑا»

            مشرق ِوسطیٰ کے اس پورے علاقے میں ایک بہت بڑے سیلاب کے واضح آثار بھی ملتے ہیں، اس بارے میں تاریخی شہادتیں بھی موجود ہیں اور آج کا علم طبقات الارض (Geology) بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔  H.G.Wells نے اس سیلاب کی تاویل یوں کی ہے کہ یہ علاقہ بحیره روم (Mediterranean) کی سطح سے بہت نیچا تھا، مگر سمندر کے مشرقی ساحل یعنی شام اور فلسطین کے ساتھ ساتھ موجود پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے سمندر کا پانی خشکی کی طرف نہیں آ سکتا تھا۔  (جیسے کراچی کے بعض علاقوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سطح سمندر سے بہت نیچے ہیں مگر ساحلی علاقہ کی سطح چونکہ بلند ہے اس لیے سمندر کا پانی اس طرف نہیں آ سکتا۔) H.G.Wells کا خیال ہے کہ اس علاقے میں سمندر سے کسی وجہ سے پانی کے لیے کوئی راستہ بن گیا ہو گا جس کی وجہ سے یہ پورا علاقہ سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔  قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق اس سیلاب کا آغاز ایک خاص تنور سے ہوا تھا جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔  اس کے ساتھ ہی آسمان سے غیر معمولی انداز میں لگا تار بارشیں ہوئیں اور زمین نے بھی اپنے چشموں کے دہانے کھول دیے۔  پھر آسمان اور زمین کے یہ دونوں پانی مل کر عظیم سیلاب کی صورت اختیار کر گئے۔  سورۃ القمر میں اس کی تفصیل بایں الفاظ بیان کی گئی ہے:

 فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْہَمِرٍ  وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ.

«پس ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیے جن سے لگا تار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ پڑے اور یہ دونوں طرح کے پانی اُس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کر دیا گیا تھا۔ »

             قُلْنَا احْمِلْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَہْلَکَ اِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ:  «ہم نے کہا: (اے نوح!) اپنی اس کشتی میں تمام جانداروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی، سوائے ان کے جن کے بارے میں پہلے حکم گزر چکا ہے»

            یہ استثنائی حکم حضرت نوح کی ایک بیوی اور آپ  کے بیٹے «یام» (کنعان) کے بارے میں تھا، جو اُسی بیوی سے تھا، جبکہ آپ  کے تین بیٹے حام، سام اور یافث ایمان لا چکے تھے اور آپ  کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے۔  حضرت سام اور ان کی اولاد بعد میں اسی علاقے میں آباد ہوئی تھی۔  چنانچہ قومِ عاد، قومِ ثمود اور حضرت ابراہیم سب سامی النسل تھے۔  حام اور یافث دوسرے علاقوں میں جا کر آباد ہوئے اور اپنے اپنے علاقوں میں ان کی نسل بھی آگے چلی۔  

             وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہُ اِلاَّ قَلِیْلٌ:  «اوران لوگوں کو بھی (سوار کر لیں) جو ایمان لائے ہیں، اور نہیں ایمان لائے تھے آپ  کے ساتھ مگر بہت ہی کم۔ »

            یہاں پر لفظ قلیل انگریزی محاورہ "the little" کے ہم معنی ہے، یعنی بہت ہی تھوڑے، نہ ہونے کے برابر۔ 

UP
X
<>