May 5, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 15

فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ

پھر ہوا یہ کہ جب وہ اُ ن کو ساتھ لے گئے، اور انہوں نے یہ طے کر ہی رکھاتھا کہ اُنہیں ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں گے، (چنانچہ ڈال بھی دیا) تو ہم نے یوسف پر وحی بھیجی کہ (ایک وقت آئے گا جب) تم ان سب کو جتلاؤ گے کہ انہوں نے یہ کام کیا تھا، اور اُ س وقت اُنہیں پتہ بھی نہ ہوگا (کہ تم کون ہو ؟)

 آیت ۱۵:  فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ: « پھر جب وہ اس کو لے گئے اور سب اس پر متفق ہو گئے کہ اسے ڈال دیں باؤلی کے طاقچے میں۔»

            یہاں پر اَجْمَعُوْٓا کے بعد عَلٰی کا صلہ محذوف ہے، یعنی اس منصوبے پر وہ سب کے سب جمع ہو گئے، انہوں نے اس رائے پر اتفاق کر لیا۔

             وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ: « اور ہم نے (اُس وقت) وحی کی یوسف کو کہ تم (ایک دن) اُن کو ان کی یہ حرکت ضرور جتلاؤ گے اور انہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہو گا۔»

            یہ بات الہام کی صورت میں حضرت یوسف کے دل میں ڈالی گئی ہو گی، کیونکہ ابھی آپ کی عمر نبوت کی تو نہیں تھی کہ باقاعدہ وحی ہوتی۔ بہر حال آپ پر یہ الہام کیا گیا کہ ایک دن تم اپنے ان بھائیوں کو یہ بات اُس وقت جتلاؤ گے جب انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہو گا۔ اس چھوٹے سے فقرے میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔ چند الفاظ کے اندر حضرت یوسف کی تسلی کے لیے گویا پوری داستان بیان کر دی گئی ہے کہ تمہاری جان کو خطرہ نہیں ہے، تم نہ صرف اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے میں کامیاب ہو جاؤ گے بلکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تم اس قابل ہو گے کہ اپنے ان بھائیوں کو اُن کا یہ سلوک جتلا سکو۔

UP
X
<>