May 3, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 23

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ 

اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے، اُس نے اُ ن کو ورغلانے کی کوشش کی، اور سارے دروازوں کو بند کر دیا، اور کہنے لگی : ’’ آبھی جاؤ ! ‘‘ یوسف نے کہا : ’’ اﷲ کی پناہ ! وہ میرا آقا ہے، اُس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ ظلم کرتے ہیں ، انہیں فلاح حاصل نہیں ہوتی۔ ‘‘

 آیت ۲۳:  وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہ: « اور آپ کو پھسلانے کی کوشش کی اس عورت نے جس کے گھر میں آپ تھے»

            یعنی عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہو گئی۔ قرآن میں اس کا نام مذکور نہیں، البتہ تورات میں اس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے۔

             وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ:  «اور (ایک موقع پر) اس نے دروازے بند کر لیے اور بولی جلدی سے آجاؤ!»

             قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ: « آپ نے فرمایا :میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں، وہ میرا رب ہے، اُس نے مجھے اچھا ٹھکانہ دیا ہے۔»

            یہاں پر «رب» کے دونوں معنی لیے جا سکتے ہیں اللہ بھی اور آقا بھی۔ چنانچہ اس فقرے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ اللہ میرا رب ہے اور اس نے میرے لیے بہت اچھے ٹھکانے کا انتظام کیا ہے، میں اس کی نافرمانی کا کیسے سوچ سکتا ہوں! دوسرے معنی میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا خاوند میرا آقا ہے، وہ میرا محسن اور مربی بھی ہے، اس نے مجھے اپنے گھر میں بہت عزت و اکرام سے رکھا ہے، اور میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤں، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا! یہ دوسرا مفہوم اس لیے بھی زیادہ مناسب ہے کہ «رب» کا لفظ اس سورت میں آقا اور بادشاہ کے لیے متعدد بار استعمال ہوا ہے۔

             اِنَّہ لاَ یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ: «بے شک ظالم لوگ فلاح نہیں پایا کرتے۔»

UP
X
<>