May 6, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 31

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ 

چنانچہ جب اُس (عزیز کی بیوی) نے ان عورتوں کے مکر کی یہ بات سنی تو اُس نے پیغام بھیج کر اُنہیں (اپنے گھر) بلوالیا، اور اُن کیلئے ایک تکیوں والی نشست تیار کی، اور اُن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چاقو دے دیا، اور (یوسف سے) کہا کہ : ’’ ذرا باہر نکل کر ان کے سامنے آجاؤ۔ ‘‘ اب جو ان عورتوں نے یوسف کو دیکھا تو انہیں حیرت انگیز (حد تک حسین) پایا، اور (اُن کے حسن سے مبہوت ہو کر) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے، اور بول اُٹھیں کہ : ’’ حاشاﷲ ! یہ شخص کوئی انسان نہیں ہے، ایک قابلِ تکریم فرشتے کے سوا یہ کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

 آیت ۳۱:  فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِہِنَّ:  «پھر جب اُس نے سنیں ان کی مکارانہ باتیں »

            عزیز مصر کی بیوی نے جب سنا کہ شہر میں اس کے خلاف اس طرح کے چرچے ہو رہے ہیں اور مصر کی عورتیں ایسی طعن آمیز باتیں کر رہی ہیں تو اس نے بھی جوابی کارروائی کا منصوبہ بنا لیا۔ یہ اس معاشرے کے انتہائی اعلیٰ سطح کے لوگوں کی بات تھی اور اس کا چرچا بھی اسی سطح پر ہو رہا تھا۔ اُسے بھی اپنے ارد گرد سب لوگوں کے کردار کا پتا تھا، کہاں کیا خرابی ہے اور کس کے ہاں کتنی گندگی ہے وہ سب جانتی تھی۔ چنانچہ اس نے اس اعلیٰ سوسائٹی کے اجتماعی کردار کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

             اَرْسَلَتْ اِلَیْہِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّکَاً:  « اُس نے دعوت دی اُن سب کو اور اہتمام کیا ایک تکیہ دار مجلس کا»

            اُس نے کھانے کی ایک ُپر تکلف تقریب کا اہتمام کیا جس میں مہمان عورتوں کے لیے گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔

             وَّاٰتَتْ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنْہُنَّ سِکِّیْنًا:  « اور ان میں سے ہر عورت کو اُس نے ایک چھری دے دی»

            کھانے کی چیزوں میں پھل وغیرہ بھی ہوں گے، چنانچہ ہر مہمان عورت کے سامنے ایک ایک چھری بھی رکھ دی گئی۔

             وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْہِنَّ: « اور (یوسف سے) کہا کہ اب تم ان کے سامنے آؤ!»

             فَلَمَّا رَاَیْنَہ اَکْبَرْنَہ: « پھر جب انہوں نے یوسف کو دیکھا تو اسے بہت عظیم جانا (ششدر

رہ گئیں )»

             وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ:  « اور ان سب نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے»

            عورتوں نے جب پاکیزگی اور تقدس کا پیکر ایک جوانِ رعنا اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو مبہوت ہو کر رہ گئیں۔ سب کی سب آپ کے حسن و جمال پر ایسی فریفتہ ہوئیں کہ اپنے اپنے ہاتھ زخمی کر لیے۔ ممکن ہے کسی ایک عورت کا ہاتھ تو واقعی عالم حیرت و محویت میں کٹ گیا ہو اور اس کی طرف حضرت یوسف بحیثیت خادم کے متوجہ ہوئے ہوں کہ خون صاف کر کے پٹی وغیرہ کر دیں اور یہ دیکھ کر باقی سب نے بھی اپنی اپنی انگلیاں دانستہ کاٹ لی ہوں کہ اس طرح یہی التفات انہیں بھی ملے گا۔ قَطَّعَ: باب ِتفعیل ہے، جس میں کسی کام کو پورے اہتمام اور ارادے سے کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔

             وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا اِنْ ہٰذَآ اِلاَّ مَلَکٌ کَرِیْمٌ: « اور وہ پکار اٹھیں کہ حاشا للہ یہ کوئی آدمی تو نہیں ! یہ تو کوئی بہت بزرگ فرشتہ ہے۔»

UP
X
<>