May 7, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 37

قَالَ لاَ يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلاَّ نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيكُمَا ذَلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ 

یوسف نے کہا : ’’ جو کھانا تمہیں (قید خانے میں ) دیا جاتا ہے وہ ابھی آنے نہیں پائے گا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت بتا دوں گا۔ یہ اُس علم کا ایک حصہ ہے جو میرے پروردگار نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ (مگر اس سے پہلے میری ایک بات سنو) بات یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا دین چھوڑ دیا ہے جو اﷲ پر اِیمان نہیں رکھتے، اور جو آخرت کے منکر ہیں

 آیت ۳۷:  قَالَ لاَ یَاْ تِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٓ اِلاَّ نَبَّاْتُکُمَا بِتَاْوِیْلِہ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَکُمَا: « یوسف نے فرمایا کہ تم لوگوں کو جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے میں تم دونوں کو اس کی تعبیر بتا دوں گا۔»

            جیل میں قیدیوں کے کھانے کے اوقات مقرر ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اب تعبیر کے بارے میں فکر مت کرو، وہ تو میں کھانا آنے سے پہلے پہلے آپ لوگوں کو بتا دوں گا، لیکن میں تم لوگوں سے اس کے علاوہ بھی بات کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا اِس وقت تم لوگ میری بات سنو۔ حضرت یوسف کا یہ طریقہ ایک داعی ٔحق کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ایک داعی کی ہر وقت یہ کوشش ہونی چاہیے کہ تبلیغ کے لیے، حق بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے جب اور جہاں موقع میسر آئے اس سے فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ حضرت یوسف نے دیکھا کہ لوگ میری طرف خود متوجہ ہوئے ہیں تو آپ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کی حاجت کو مؤخر کرکے پہلے انہیں پیغامِ حق پہنچانا ضروری سمجھا۔

             ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ: « یہ اُس علم میں سے ہے جو میرے ربّ نے مجھے سکھایا ہے۔»

            آپ نے انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بات شروع کی اور خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا، کہ یہ علم مجھے میرے رب نے سکھایا ہے، اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں ہے۔

             اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ: «(دیکھو!) میں نے ترک کر دیا ہے اُس قوم کا راستہ جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے یہی لوگ منکر ہیں۔»

UP
X
<>