May 6, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 38

وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَآئِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّهِ مِن شَيْءٍ ذَلِكَ مِن فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ 

اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ اﷲ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک ٹھہرائیں ۔ یہ (توحید کا عقیدہ) ہم پر اور تمام لوگوں پر اﷲ کے فضل کا حصہ ہے، لیکن اکثر لوگ (اس نعمت کا) شکر ادا نہیں کرتے

 آیت ۳۸:  وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ: « اور میں نے پیروی کی ہے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے طریقے کی۔»

            آپ کی اس بات سے موروثی اور شعوری عقائد کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی ایک تو وہ عقائد و نظریات ہیں جو بچہ اپنے والدین سے اپناتا ہے، جیسے ایک مسلمان گھرانے میں بچے کو موروثی طور پر اسلام کے عقائد ملتے ہیں۔ اللہ اور رسول کا نام وہ بچپن ہی سے جانتا ہے، ابتدائی کلمے اس کو پڑھا دیے جاتے ہیں، نماز بھی سکھا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ شعورکی عمرکو پہنچنے کے بعد اپنے آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں اپنے علم اور غوروفکر سے کوئی عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ اس کا شعوری عقیدہ ہو گا۔ چنانچہ حضرت یوسف نے اپنے اس شعوری عقیدے کا ذکر کیا کہ اگرچہ وہ جن لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں، وہ اللہ، اس کے کسی نبی اور وحی وغیرہ کے تصورات سے نابلد ہیں، سب کے سب کافر اور مشرک ہیں، مگر مجھے دیکھو میں نے اس ماحول کا اثر قبول نہیں کیا، اپنے ارد گرد کے لوگوں کے نظریات وعقائد نہیں اپنائے، بلکہ پورے شعور کے ساتھ اپنے آباء و اَجداد کے نظریات کو صحیح مانتے ہوئے ان کی پیروی کر رہا ہوں، صرف اس لیے نہیں کہ وہ میرے آباء و اَجداد تھے، بلکہ اس لیے کہ یہی راستہ میرے نزدیک معقول اور عقل سلیم کے قریب تر ہے۔

             مَا کَانَ لَـنَـآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ: «(دیکھو!) ہمارے لیے یہ روا نہیں ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی بھی شے کو شریک کریں۔»

             ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ: « یہ اللہ کا بڑا فضل ہے ہم پر اور سب لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔»

            یعنی شرک سے بچنے اور توحید کو اپنانے کا عقیدہ دراصل اللہ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس حیثیت میں انسان کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی پرستش کرتا پھرے جنہیں خود اس کی خدمت اور استفادے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

UP
X
<>