May 3, 2024

قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 18

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لاَّ يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُواْ عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلاَلُ الْبَعِيدُ

جن لوگوںنے اپنے رَبّ کے ساتھ کفر کی رَوِش اختیا رکی ہے ، ان کی حالت یہ ہے کہ اُن کے اعمال اُس راکھ کی طرح ہیں جسے آندھی طوفان والے دن میں ہوا تیزی سے اُڑالے جائے ۔ انہوںنے جو کچھ کمائی کی ہوگی ، اُس میں سے کچھ اُن کے ہاتھ نہیں آئے گا ۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے 

 آیت ۱۸:  مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ: «مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفرکیا اپنے ربّ کے ساتھ (ایسی ہے) کہ ان کے اعمال ہوں راکھ کی مانند، جس پر زور دار ہوا چلے آندھی کے دن۔»

            اللہ کے ہاں کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے ایمان لازمی اور بنیادی شرط ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنے رب کا کفر کرتے ہیں ان کے نیک اعمال کو یہاں راکھ کے ایسے ڈھیر سے تشبیہ دی گئی ہے جس پر تیز آندھی چلی اور اس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہو گیا۔ یعنی بظاہر تو وہ ڈھیر نظر آتا تھا مگر اللہ کے ہاں اس کی کچھ بھی حیثیت باقی نہ رہی۔ یہ بہت اہم مضمون ہے اور قرآن کریم میں مختلف مثالوں کے ساتھ اسے تین بار دہرایا گیا ہے۔ سورۃ النور کی آیت: ۳۹ میں کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہہ دی گئی ہے اور سورۃ الفرقان کی آیت: ۲۳ میں منکرین آخرت کے اعمال کو ہَبَآءًا مَّنْثُوْرًا: یعنی «ہوا میں اڑتے ہوئے ذرات» کی مانند قراردیا گیا ہے۔

            دراصل ہر انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق نیکی کا ایک تصور رکھتا ہے، کیونکہ نیکی ہر انسان کی روح کی ضرورت ہے، مگر نیکی کا تعلق چونکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی قبولیت کے ساتھ ہے، چنانچہ اس کے لیے معیار بھی وہی قابل قبول ہو گا جو اللہ نے خود قائم کیا ہے، اور وہ معیار سورۃ البقرۃ کی  آیت البر کی روشنی میں یہ ہے:

 لَـیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِيِبِّنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ.

«نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو، بلکہ اصل نیکی تو اُس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر۔ اور اس نے خرچ کیا مال اس کی محبت کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں۔ اور قائم کی نماز اور ادا کی زکوٰۃ۔ اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کے جب کوئی عہد کر لیں۔ اور صبرکرنے والے فقر و فاقہ میں، تکالیف میں اور حالت ِجنگ میں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی حقیقت میں متقی ہیں۔»

            اگر نیکی اس معیار کے مطابق ہے تو پھر یہ واقعی نیکی ہے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو نیکی کی شکل میں دھوکہ، سراب، اور فریب ہے، نیکی نہیں ہے۔ دراصل جب انسان کی فطرت مسخ ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا نیکی کا تصور بھی مسخ ہو جاتا ہے۔ نیکی چونکہ ایک برے سے برے انسان کے بھی ضمیر کی ضرورت ہے اس لیے بجائے اس کے کہ ایک برا انسان اپنی اصلاح کر کے اپنے اعمال و کردار کو نیکی کے مطلوبہ معیار پر لے آئے، وہ الٹا نیکی کے معیار کو گھسیٹ کر اپنے خیالات و نظریات کی گندگی کے ڈھیر کے اندر اس کی جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں چور، ڈاکو اور لٹیرے صدقہ وخیرات کرتے اور خدمت خلق کے بڑے بڑے کام کرتے نظر آتے ہیں اور جسم فروش عورتیں مزاروں پر دھمال ڈالتی اور نیاز بانٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اپنے ضمیر کی تسکین کا سامان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے پیشے میں قدرے قباحت کا عنصر پایا جاتا ہے تو کیا ہوا، اس کے ساتھ ساتھ ہم نیکی کے فلاں فلاں کام بھی تو کرتے ہیں!

            اسی طرح جب مذہبی مزاج رکھنے والے لوگوں کی فطرت مسخ ہوتی ہے تو وہ کبیرہ گناہوں کی طرف سے بے حس اور صغائر کے بارے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ صغائر کے بارے میں تو بڑے زور دار مباحثے اور مناظرے کر رہے ہوتے ہیں، مگر کبائر کو وہ لائق اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ اس پس منظر میں صحیح طرز عمل یہ ہے کہ پہلے کبائر سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے اور پھر اس کے بعد صغائر کی طرف توجہ کی جائے۔ بہر حال قیامت کے دن بے شمار ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے زعم میں بہت زیادہ نیکیاں لے کر آئے ہوں گے، مگر اللہ کے نزدیک ان کی نیکیوں کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہو گی۔

             لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْئٍ  ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ: «انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا اُس میں سے جو کمائی انہوں نے کی ہو گی۔یہی تو ہے دُور کی گمراہی۔»

            ان کو زعم ہو گا کہ انہوں نے دنیا میں بہت نیک کام کیے تھے، خدمت خلق کے بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کر رکھے تھے، مگر اُس دن وہاں ان میں سے کوئی نیکی بھی ان کے کام آنے والی نہیں ہو گی۔

UP
X
<>