May 5, 2024

قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 26

وَمَثلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ 

اور ناپاک کلمے کی مثال ایک خراب درخت کی طرح ہے جسے زمین کے اُوپر ہی اُوپر سے اُکھاڑ لیا جائے ، اُس میں ذرا بھی جمائو نہ ہو 

 آیت ۲۶:  وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ: «اور کلمۂ خبیثہ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گھٹیا درخت (جھاڑ جھنکاڑ)، جسے زمین کے اوپر سے ہی اکھاڑ لیا جائے، اُس کے لیے کوئی قرار نہیں۔»

            بھلائی اور اس کے اثرات کے مقابلے میں برائی، برائی کی دعوت اور برائی کے اثرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بہت عمدہ، مضبوط اور پھلدار درخت کے مقابلے میں جھاڑ جھنکاڑ۔ نہ اس کی جڑوں میں مضبوطی، نہ وجود کو ثبات، نہ سایہ، نہ پھل۔ برائی بعض اوقات لوگوں میں رواج بھی پا جاتی ہے، انہیں بھلی بھی لگتی ہے اور اس کی ظاہری خوبصورتی میں لوگوں کے لیے وقتی طور پر کشش بھی ہوتی ہے۔ جیسے مالِ حرام کی کثرت اور چمک دمک لوگوں کو متاثر کرتی ہے مگر حقیقت میں نہ تو برائی کو ثبات اوردوام حاصل ہے اور نہ اس کے اثرات میں لوگوں کے لیے فائدہ! 

UP
X
<>