May 5, 2024

قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 31

قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُواْ يُقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَيُنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خِلاَلٌ 

  میرے جو بندے ایمان لائے ہیں ، اُن سے کہہ دو کہ وہ نماز قائم کریں ، اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اُ س میں سے پوشیدہ طور پر بھی اور علانیہ بھی (نیکی کے کاموں میں ) خرچ کریں ، (اور یہ کام ) اُس دن کے آنے سے پہلے پہلے (کر لیں ) جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی ، نہ کوئی دوستی کام آئے گی 

 آیت ۳۱:  قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ: «آپ کہیے میرے ان بندوں سے جو ایمان لائے ہیں کہ وہ نماز قائم کریں »

            یہاں یہ نکتہ لائق ِتوجہ ہے کہ قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے رسول اللہ کو مخاطب کر کے اہل ایمان کو بالواسطہ حکم دیا جا رہا ہے اور یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکے الفاظ سے اہل ِایمان کو براہِ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ پورے مکی قرآن میں یٰاَیُّھَا الَّـذِیْنَ اٰمَنُوْاکے الفاظ سے براہِ راست مسلمانوں سے خطاب نہیں کیا گیا۔ (سورۃ الحج میں ایک مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں مگر اس سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔) اس میں جو حکمت ہے وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جہاں تک مجھے اس کی وجہ سمجھ میں آئی ہے وہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ یٰٓــاَیُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکا طرزِ خطاب اُمت کے لیے ہے اور مکی دور میں مسلمان ابھی ایک اُمت نہیں بنے تھے۔ مسلمانوں کو اُمت کا درجہ مدینہ میں آ کر تحویل قبلہ کے بعد ملا۔ پچھلے دو ہزار برس سے اُمت ِمسلمہ کے منصب پر یہودی فائز تھے۔انہیں اس منصب سے معزول کر کے محمد ٌرسول اللہ کی اُمت کو اُمت مسلمہ کا درجہ دیا گیا اور تحویل ِقبلہ اس تبدیلی کی ظاہری علامت قرار پایا۔ یعنی یہودیوں کے قبلہ کی حیثیت بطورِ قبلہ ختم کرنے کا مطلب یہ قرار پایا کہ انہیں اُمت ِمسلمہ کے منصب سے معزول کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں یٰٓــاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں سے خطاب اس کے بعد شروع ہوا۔

             وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْ تِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خِلٰلٌ: «اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہیں خفیہ اور علانیہ، اس سے پہلے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی۔»

            یہ  آیت سورۃ البقرۃ کی  آیت ۲۵۴ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ وہاں بیع اور دوستی کے علاوہ شفاعت کی بھی نفی کی گئی ہے : یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ یَّـاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خُلَّـۃٌ وَّلاَ شَفَاعَۃٌ:۔ یعنی اُس دن سے پہلے پہلے ہمارے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کر لو جس میں نہ کوئی بیع ہو گی، نہ کوئی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کسی کی شفاعت فائدہ مند ہو گی۔

UP
X
<>