May 18, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 102

قُلْ نَزَّلَهُ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ

کہہ دوکہ : ’’ یہ (قرآن کریم) تو رُوح القدس (یعنی جبریل علیہ السلام) تمہارے رَبّ کی طرف سے ٹھیک ٹھیک لے کر آئے ہیں ، تاکہ وہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے، اور مسلمانوں کیلئے ہدایت اور خوشخبری کا سامان ہو

 آیت ۱۰۲:  قُلْ نَزَّلَہ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِ:  «آپ کہیے کہ اسے نازل کیا ہے روح القدس نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ»

            یہاں پر روح القدس کا لفظ حضرت جبرائیل کے لیے آیا ہے کہ ایک پاک فرشتہ اس کلام کو لے کر آیا ہے۔

             لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ:  «تا کہ وہ ثابت قدم رکھے اہل ایمان کو»

            سورۃ الفرقان میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے:  کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا:  «تا کہ ہم مضبوط کریں اس کے ساتھ آپ کے دل کو اور (اسی لیے) ہم نے پڑھ سنایا اسے ٹھہر ٹھہر کر۔»

             وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ:  «اور یہ ہدایت اور خوشخبری ہو فرماں برداروں کے لیے۔»

            جیسے جیسے حالات میں تبدیلی آ رہی ہے، ویسے ویسے اس قرآن کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ہدایت وراہنمائی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مثلاً قصہ آدم  وابلیس جب پہلی دفعہ بیان کیا گیا تو اس میں وہ تفصیلات بیان کی گئیں جو اس وقت کے مخصوص معروضی حالات میں حضور اور مسلمانوں کے لیے جاننا ضروری تھیں۔ پھر جب حالات میں تبدیلی آئی تو یہی قصہ کچھ مزید تفصیلات کے ساتھ پھر نازل کیا گیا اور اسی اصول اور ضرورت کے تحت اس کا نزول بار بار ہوا تا کہ ہر دور کے حالات کے مطابق اہل حق اس میں سے اپنی راہنمائی کے لیے سبق حاصل کر سکیں۔

UP
X
<>