May 18, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 112

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ

اﷲ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پر امن اور مطمئن تھی، اُس کا رزق اُس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہاتھا۔ پھر اُس نے اﷲ کی نعمتوں کی ناشکر ی شروع کر دی، تو اﷲ نے اُن کے کرتوت کی وجہ سے اُن کو یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف اُن کا پہننا اوڑھنا بن گیا

 آیت ۱۱۲:  وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَان:  «اور اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک بستی کی جو بالکل امن واطمینان کی حالت میں تھی، آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق با فراغت ہر طرف سے»

             فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ:  «تو اُس نے نا شکری کی اللہ کی نعمتوں کی، تو اسے چکھا (پہنا) دیا اللہ نے لباس بھوک اور خوف کا، اُن کے کرتوتوں کی پاداش میں۔»

            اس تمثیل کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ ایک عام تمثیل ہے اور کسی خاص بستی سے متعلق نہیں۔ کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ قومِ سبا کی مثال ہے جس کے بارے میں تفصیل آگے چل کر سوره سبا میں آئے گی۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ اس مثال کے آئینے میں مکہ اور اہل مکہ کا ذکر ہے کہ یہ شہر ہمیشہ سے امن وسکون کا گہوارہ چلا آ رہا تھا اور یہاں اہل مکہ کی تجارتی سرگرمیوں اور حج وعمرہ کے اجتماعات کے باعث خوشحالی اور فارغ البالی بھی تھی۔ دنیا بھر سے انواع وا قسام کا رزق فراوانی سے ان کے پاس چلا آتا تھا، مگر حضور کی بعثت کے بعد آپ کی دعوت کا انکار کرنے کی پاداش میں اس شہر کے باشندوں پر قحط کا عذاب مسلط کر دیا گیا تھا۔ مکہ میں یہ قحط اسی قانونِ خداوندی کے تحت آیا تھا جس کا ذکر سورۃ الانعام کی (آیت: ۴۲) اور سورۃ الاعراف کی (آیت: ۹۴) میں ہوا ہے۔ اس اصول یا قانون کے تحت ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب آتے ہیں تا کہ انہیں خواب ِغفلت سے جاگنے اور سنبھلنے کا موقع مل جائے اور وہ رسول پر ایمان لا کر بڑے عذاب سے بچ جائیں۔

            تاویل خاص کے اعتبار سے اس مثال میں یقینا مکہ ہی کی طرف اشارہ ہے مگر اس کی عمومی حیثیت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ کوئی بستی بھی اس قانونِ خداوندی کی زد میں آ سکتی ہے۔ جیسے پاکستان کے عروس البلاد کراچی کے حالات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب کراچی میں امن وامان، وسائل ِرزق کی فراوانی اور خوشحالی کی کیفیت ملک بھر کے لوگوں کے لیے باعث ِکشش تھی، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر وہی نقشہ پیش کرنے لگا جس کی جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔ یعنی کفرانِ نعمت کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس کے باشندوں کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔ 

UP
X
<>