May 18, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 120

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

بیشک ابراہیم ایسے پیشوا تھے جنہوں نے ہر طرف سے یکسو ہو کر اﷲ کی فرماں برداری اختیار کر لی تھی، اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں

 آیت ۱۲۰:  اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ:  «یقینا ابراہیم ایک امت تھے، اللہ کے لیے فرمانبرداراور یکسو، اور آپ مشرکین میں سے نہیں تھے۔»

            اَمَّ یَؤمُّ:  کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سوره یوسف (آیت: ۴۵) میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے (وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ)۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہو جائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے، یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چنانچہ اسی معنی میں سورۃ البقرۃ کی (آیت: ۱۴۳) میں فرمایا گیا:  وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاس۔ اس لحاظ سے آیت زیر نظر میں لفظ اُمت کامفہوم یہ ہو گا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے، اور ایک ریت ڈالنے والے تھے، اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک اُمت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علم بردار تھے۔ 

UP
X
<>