April 29, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 25

لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلاَ سَاء مَا يَزِرُونَ 

(ان باتوں کا) نتیجہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن خود اپنے (گناہوں ) کے پورے پورے بوجھ بھی اپنے اُوپر لادیں گے، اور اُن لوگوں کے بوجھ کا ایک حصہ بھی جنہیں یہ کسی علم کے بغیر گمراہ کر رہے ہیں ۔ یاد رکھو کہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ لاد رہے ہیں

 آیت ۲۵:  لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَہُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ:  «تا کہ یہ اٹھائیں اپنے (گناہوں کے) بوجھ پورے کے پورے قیامت کے دن»

            یوں ان کے دل حق کی طرف مائل نہیں ہو رہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ روز قیامت وہ اپنی اس گمراہی اور سر کشی کے وبال میں گرفتار ہوں گے۔

             وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ:  «اور کچھ اُن لوگوں کے بوجھ بھی جنہیں یہ گمراہ کررہے ہیں لاعلمی میں۔»

            یعنی قیامت کے دن وہ نہ صرف اپنی گمراہی کا خمیازہ بھگتیں گے، بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کی گمراہی کا وبال بھی ان پر ڈالا جائے گا جنہیں اپنے نام نہاد، دانشورانہ مشوروں سے انہوں نے گمراہ کیا ہو گا۔ جیسے قرب وجوار کے لوگ جب اہل مکہ سے اس کلام کے بارے میں پوچھتے تھے یا مکہ کے عام لوگ قرآن سے متاثر ہو کر اپنے سرداروں سے پوچھتے تھے کہ اُن کی اس کلام کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ایسی صورت میں یہ لوگ اپنے عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے تھے کہ ہاں ہم نے بھی یہ کلام سنا ہے، اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے، بس سنی سنائی باتیں ہیں اور پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔

             اَلاَسَآءَ مَا یَزِرُوْنَ:  «آگاہ رہو! بہت ُبرا ہو گا جو بوجھ وہ اٹھائے ہوں گے۔» 

UP
X
<>